پشین اور قلعہ سیف اللہ میں دھماکے، 29 ہلاکتیں،صوبے میں 3 دن سوگ
پشین اور قلعہ سیف اللہ میں دھماکے، 29 ہلاکتیں،صوبے میں 3 دن سوگ
بدھ 7 فروری 2024 18:24
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق ’خانوزئی دھماکے میں 19 افراد ہلاک جبکہ 23 زخمی ہوئے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان کے ضلع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 29 تک پہنچ گئی جبکہ 46 افراد زخمی ہوئے ہیں۔بلوچستان حکومت نے صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے ۔
حکام کے مطابق انتخابات سے صرف ایک روز قبل بدھ کی صبح پہلا دھماکہ کوئٹہ سے متصل ضلع پشین کے علاقے خانوزئی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 اور بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 47 سے آزاد امیدوار اسفندیار کاکڑ کے انتخابی دفتر کے باہر ہوا۔
اس کے بعد ایک گھنٹے کے اندر ہی دوسرا دھماکہ پشین سے ہی متصل ضلع قلعہ سیف اللہ میں شہر کے مرکزی علاقے جنکشن چوک کے قریب جمعیت علماء اسلام کے انتخابی دفتر کے داخلی گیٹ پر ہوا۔
حکام کے مطابق دونوں دھماکے اس وقت ہوئے جب وہاں پولنگ ایجنٹ کی میٹنگ جاری تھی اور انتخابی تیاریوں کے حوالے سے بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
پشین کے علاقے خانوزئی کے اسسٹنٹ کمشنر دھیرج کالرا نے اُردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’خانوزئی دھماکے میں 19 افراد ہلاک جبکہ 23 زخمی ہوئے۔‘
خانوزئی تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر حبیب الرحمان کے مطابق ’مرنے والوں میں دس سے بارہ سال کا ایک بچہ بھی شامل ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ زخمیوں کو مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر کوئٹہ کے ترجمان کے مطابق ’خانوزئی سے 23 زخمیوں کو ٹراما سینٹر لایا گیا جن میں چار کی حالت تشویشناک ہے۔‘
کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے بتایا کہ ’سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر میں زیرِ علاج زخمیوں کے لیے خون کی ضرورت ہے۔انہوں نے شہریوں سے خون کا عطیہ دینے کی اپیل بھی کی۔
اسسٹنٹ کمشنر خانوزئی دھیرج کالرا کا کہنا ہے کہ ’دھماکہ موٹرسائیکل میں نصب بم کے ذریعے کیا گیا۔بم ڈسپوزل سکواڈ کی رپورٹ کے مطابق دھماکہ ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا جس میں بال بیرنگ اور سات سے آٹھ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
علاقے سے انتخاب لڑنے والے جماعت اسلامی کے عہدیدار صابر خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ دھماکے کی جگہ سے چند ہی لمحے پہلے گزرے تھے اور وہاں کافی رش تھا۔‘
’اسفندیار کاکڑ نے خانوزئی کے جنکشن چوک پر این 50 شاہراہ پر دفتر قائم کر رکھا تھا۔ لوگ دفتر کے باہر سڑک کنارے قالین بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے وقت وہاں پولنگ ایجنٹس کی میٹنگ جاری تھی۔
خانوزئی کوئٹہ سے شمال کی جانب تقریباً 70 کلومیٹر دُور ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 47 کہلاتا ہے جس میں خانوزئی کے علاوہ برشور کا علاقہ بھی شامل ہے۔
اس حلقہ پر جے یو آئی کے سابق ایم این اے مولوی کمال الدین اور آزاد امیدوار اسفند یار کاکڑ کے درمیان مقابلہ ہے۔ اسفند یار کاکڑ این اے 265 پشین پر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے مدمقابل بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔
ادھر پشین سے متصل قلعہ سیف اللہ میں شہر کے مرکزی علاقے جنکشن چوک کے قریب بھی بم دھماکہ ہوا۔ قلعہ سیف اللہ کے ضلعی پولیس سربراہ ایس پی اختر محمد اچکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ دھماکے میں جمعیت علما اسلام کے انتخابی دفتر کے داخلی دروازے پر ہوا ۔
ایس پی کے مطابق دھماکے میں 10 افراد ہلاک اور 25زخمی ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے دھماکہ موٹر سائیکل پر نصب ٹائم ڈیواس کا لگ رہا ہے۔
عینی شاہد نظام الدین نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ این اے 251 شیرانی کم ژوب کم قلعہ سیف اللہ کے امیدوار مولوی سمیع الدین اور بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 3 قلعہ سیف اللہ کے امیدوار مولانا عبدالواسع کا انتخابی دفتر تھا جہاں انتخابی تیاریوں کے حوالے سے پارٹی کے کارکن اور پولنگ ایجنٹس جمع تھے۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکہ بہت شدید تھا اور کئی افراد کے جسم کے چیتھڑے اُڑ گئے۔دھماکے کی جگہ ہر طرف تباہی پھیل گئی۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ کے وقت وہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جبکہ سیکورٹی کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔
ایس پی قلعہ سیف اللہ اختر اچکزئی کے مطابق ’نشانہ بننے والے تقریباً سارے ہی افراد جے یو آئی کے کارکن تھے۔ دھماکے کے وقت مولانا عبدالواسع دفتر میں موجود نہیں تھے۔‘
مولانا عبدالواسع جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے امیر ہیں۔وہ وفاقی وزیر اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں اور اس حلقے سے کئی مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں۔
اس سے قبل 30 جنوری کو سبی میں پی ٹی آئی کی ریلی کے دوران بھی اسی طرز کا موٹرسائیکل بم دھماکہ ہوا تھا جس میں پی ٹی آئی کے چار کارکن ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم ’داعش‘ نے قبول کی تھی۔
بلوچستان میں گذشتہ ایک ماہ میں انتخابی مہم کے دوران 50 سے زائد حملے ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر کم شدت کے تھے۔ زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں نے قبول کی ہے۔
پشین اور قلعہ سیف اللہ دونوں پشتون اکثریتی اضلاع ہیں جہاں بلوچ کالعدم تنظیمیں فعال نہیں، اس لیے شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں دھماکوں میں کالعدم شدت پسند مذہبی تنظیمیں ملوث ہوسکتی ہیں۔
بلوچستان میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انتظامیہ نے کوئٹہ، پشین سمیت صوبے کے بیشتر اضلاع میں امیدواروں کو انتخابی مہم محدود کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سکیورٹی انتظامات سخت
دھماکوں کے بعد پشین، قلعہ سیف اللہ اور کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے ہیں۔ کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر بتایا کہ ’کوئٹہ ڈویژن میں جمعرات کی رات تک ڈبل سواری پر مکمل پابندی عائد ہے۔‘
ان کے مطابق ’سنیپ چیکنگ بڑھا دی گئی ہے۔ بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بند کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شناختی کارڈ کے بغیر باہر پھرنے والوں کو گرفتار کیا جائےگا۔ پولنگ سٹیشنز کے آس پاس تمام بازار اور مارکیٹیں جمعرات کی رات تک بند رہیں گی۔ انہوں نے عوام سے تعاون کی اپیل کی۔‘ محکمہ داخلہ کو سکیورٹی پلان پر نظرثانی کی ہدایت
نگراں وزیراعلٰی بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی نے پشین اور قلعہ سیف اللہ میں بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے محکمہ داخلہ بلوچستان کو نظرثانی شدہ مؤثر سکیورٹی پلان مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کے دوران اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات عوام کو ہراساں کرنے اور پرامن ماحول کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہیں جسے ہر حال میں ناکام بنایا جائے گا۔‘
وزیراعلٰی سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ’قلعہ سیف اللہ بم دھماکے کے زخمیوں کو فوری کوئٹہ پہنچانے کے لیے وزیراعلٰی نے حکومت بلوچستان کا ہیلی کاپٹر بجھوایا جس کے ذریعے پانچ شدید زخمیوں کو کوئٹہ کے سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘
نگراں وزیراعلٰی نے جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع اور آزاد امیدوار اسفند یار کاکڑ سے ٹیلیفون پر رابطہ بھی کیا اور دھماکے میں جانی نقصانات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
نگراں وزیراعلٰی بلوچستان علی مردان ڈومکی نے کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل راحت نسیم احمد خان کے ہمراہ محکمہ داخلہ میں قائم کنٹرول رُوم کا دورہ کیا۔
اس موقع پر بریفنگ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں فوج، ایف سی پولیس اور لیویز کے 66 ہزار 214 جوانواں کو تعینات کردیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ جمعرات کو بلا خوف و خطر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ انڈیا پر الزام
نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے پشین اور قلعہ سیف اللہ دھماکوں میں جانی نقصان پر تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا نے بلوچستان کو دہشت گردی کے نشانے پر رکھا ہے۔ یہ دہشت گرد وہی لوگ ہیں جو مچھ کے واقعے میں ملوث رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے شہدا کا بدلہ لیں گے۔ انڈیا کے دہشت گردی کے اس ایجنڈے کو نیست و نابود کریں گے۔ جان اچکزئی کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ہر صورت میں ہوں گے۔ آج کے واقعات کا ایک ہی مقصد انتخابات کو سبوتاژ کرنا اور اس عمل پر اثرانداز ہونا ہے۔
’عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ان واقعات کے باوجود انتخابات ہوں گے۔بلوچستان کے عوام بغیر کسی خوف و ہراس کے اپنا حق رائے دہی کا استعمال کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مقامی انتظامیہ کو امن وامان برقرر رکھنے کے لیے پولیس اور لیویز کے علاوہ ایف سی اور آرمی کے جوانوں کو بھی طلب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ حوصلے بلند ہیں: مولانا عبدالواسع
واقعہ کے بعد جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس میں پشین اور قلعہ سیف اللہ میں بم دھماکوں کی مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس طرح کے واقعات سے ڈرنے والے نہیں، ہمارے کارکنوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ہم انتخابات میں حصہ لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمیعت کو اس لیے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ ہم جمہوری پاکستان بنانے کے لیے جدو جہد کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ انتخابات کے لیے ماحول سازگار نہیں۔ انتخابات نہ کرانے کا کہا تھا مگر اس کے باوجود انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم نے ملکی مفاد میں فیصلہ قبول کیا۔