Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انتخابات کے بعد کا پاکستان اچھا ہو گا لیکن نتائج نہ مانے تو حالات خراب ہوں گے‘

لاہور میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے الیکشن کمیپ بڑی تعداد میں نظر آئے۔ فوٹو: اے ایف پی
یہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے کی پی ڈبلیو ڈی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جہاں پر مڈل کلاس سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین اور کاروباری گھرانے رہائش پذیر ہیں۔
اس وقت گیارہ بجے ہیں، یہاں کا بازار عام طور پر گیارہ بجے کے بعد ہی کھلتا ہے۔ لیکن کچھ دکانیں ابھی کھلی ہیں۔ پی ڈبلیو ڈی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک سکول میں بنائے گئے پولنگ سٹیشن کے باہر کچھ جماعتوں کے الیکشن کیمپ خالی ہیں اور کچھ پر چند لوگ آ کر ووٹ کے لیے پرچیاں حاصل کر رہے ہیں۔
کیمپوں کے سامنے سے ایک 85 سالہ بزرگ محمد شفیع چادر لپیٹے اور سر پر ٹوپی لیے اپنے ایک عزیز کے سہارے مشکل سے چلتے آ رہے ہیں۔ وہ اطمینان سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے ووٹ پول کر دیا ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
ان سے پوچھا کہ ان کے خیال میں آج کے انتخابات کے بعد کل طلوع ہونے والے دن کا پاکستان کیسا ہو گا تو سر ہلا کر بولے ’ٹھیک ہی ہو گا۔‘
پولنگ سٹیشن کے باہر پولیس والے مستعد کھڑے ہیں اور اس کا دروازہ بند ہے جو کہ ووٹر کا شناختی کارڈ دیکھ کر کھولا جاتا ہے۔ لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کے پاس موبائل فون تو نہیں اور اگر کسی کے پاس ہو تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ باہر رکھ کر آئیں۔
اندر چار بوتھ ہیں جہاں عورتوں اور مردوں کی الگ الگ قطاریں بنی ہوئی ہیں۔ ایک قطار میں ایک وقت میں کم و بیش ایک درجن افراد ووٹ ڈالنے کے لیے انتظار کر رہے ہیں اور باری باری جا کر بیلیٹ پیپر حاصل کرتے اور اس پر مہر لگاتے ہیں۔

کچھ پولنگ سٹیشنز پر خواتین ووٹرز کی تعداد نسبتا زیادہ

خواتین بوتھ کی پریذائیڈنگ آفیسر ڈاکٹر مسرت کے مطابق پولنگ کا عملہ صبح سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی فارغ نہیں ہوا اور ووٹرز بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے آ رہے ہیں۔
70 برس کی سلیمہ عباسی اس بوتھ سے ووٹ ڈال کر باہر نکلی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’انہوں نے بہتری کے لیے ووٹ ڈالا ہے اور ان کو امید ہے کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں اچھی تبدیلی آئے گی۔‘
ایک سکول ٹیچر قرات العین جو نیلے رنگ کے نقاب اور چادر میں ملبوس ہیں ووٹ ڈالنے کے بعد بہت پُرجوش ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کے ووٹ سے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا۔

لاہور کے ایک پولنگ سٹیشن میں انتخابی عملہ ایک ووٹر کو بیلٹ پیپر جاری کر رہا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

40 برس کے سرکاری ملازم محمد حنیف کو تاہم یقین نہیں کہ ان کا ووٹ اسی پارٹی کے لیے گنا جائے گا جس کو انہوں نے دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر نتائج میں رد و بدل نہ ہوا اور وہی پارٹی جیتی جس کو لوگوں نے ووٹ ڈالا تو ملک میں بہتری آئے گی۔
84 سالہ سردار غلام عباسی ووٹنگ کے عمل میں شریک ہونے کے بعد تھک کر بوتھ کے باہر پڑی کرسی پر بیٹھ گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی ہونی چاہیے اور اس کے بعد کا پاکستان اچھا ہونا چاہیے۔‘
تاہم انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ انتخابات کے نتائج نہ ماننے کی صورت میں حالات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔
لاہور سے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے انتخابات سے متعلق معلومات کی ترسیل میں تعطل آ یا ہے۔ اور چھٹی کی وجہ سے سڑکوں پر بھی ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔
’بعض پولنگ سٹیشنوں پر زیادہ رش ہے جبکہ کئی پولنگ سٹیشنز پر بہت کم لوگ دکھائی دے رہے ہیں۔‘
لاہور ہی سے ادیب یوسفزئی کے مطابق حلقہ این اے 130 کے پولنگ سٹیشنز پر خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے. تاہم پولنگ ایجنٹس نے شکایات کی ہیں کہ انہیں صبح سے صرف پانی فراہم کیا گیا ہے اور کھانا اور چائے فراہم نہیں کی گئی۔

کئی علاقوں میں ووٹرز اپنے بچوں کو بھی پولنگ سٹیشن لے کر آئے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

تحریک انصاف اور یاسمین راشد کے کیمپس غائب ہیں۔ ہر جگہ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے کیمپس موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کے کیمپس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے کیمپس تاحال خالی ہیں۔
اس حلقے میں اوورسیز پاکستانی بھی بڑی تعداد میں آ رہے ہیں۔ ایک فیملی نے اپنے انگوٹھے دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اس ووٹ کے لیے یہاں آئے ہیں۔
پشاور سے فیاض احمد  کے مطابق بیشتر پولنگ سٹیشنز میں ووٹنگ کا عمل تاخیر سے شروع ہوا تاہم صبح دس بجتے ہی ووٹرز کی بڑی تعداد پولنگ سٹیشن کا رخ کرنے لگی جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔
ووٹرز کو پولنگ سٹیشن ڈھونڈنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خاتون ووٹر عائشہ بی بی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں دو پولنگ سٹیشنز کا بتایا گیا مگر وہاں ہمارے ووٹ رجسٹرڈ نہیں، اب ہمیں چار کلومیٹر دور ایک اور پولنگ سٹیشن کا بتایا گیا۔‘

شیئر: