Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

50 سال بعد بھی بنگلہ دیش کو بیرون ملک غیرقانونی طور پر گود لیے گئے بچوں کی تلاش

دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نورجہاں کو اپنے بیٹے کا انتظار ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
بلال حسین آٹھ ماہ کے تھے جب ان کی والدہ نورجہاں بیگم نے انہیں ڈھاکہ کے ایک پسماندہ علاقے میں اپنے گھر کے قریب ایک خیراتی ادارے کے یتیم خانے میں دیکھ بھال کے لیے بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن کچھ دنوں بعد وہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔
عرب نیوز میں شائع مضمون کے مطابق 70 کی دہائی کے اواخر میں ہزاروں بنگلہ دیشی بچوں کو بیرون ملک گود لیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج اور اس سے منسلک نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں عصمت دری کے واقعات میں بچ جانے والی خواتین کے بچے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اُس وقت دو لاکھ سے چار لاکھ کے درمیان بنگالی خواتین اور لڑکیوں کا ریپ کیا گیا۔ ان واقعات کے بعد نو آزاد بنگلہ دیش کی حکومت نے 1972 میں ہنگامی قانون سازی کی تھی تاکہ غیرملکیوں کو ملک بھر کے یتیم خانوں میں چھوڑے گئے ’جنگ کے شکار بچوں‘ یا (وار بے بیز) کو گود لینے کی اجازت دی جا سکے۔
1976 میں ٹونگی کے پسماندہ صنعتی علاقے میں رہنے والی دو بچوں کی اکیلی ماں ہونے کے ناطے نورجہاں بیگم کو امید تھی کہ کم از کم ان کے سب سے چھوٹے بچے کو اس خیراتی ادارے سے اچھی خوراک ملے گی جس نے مدد کی پیشکش کی تھی۔
اس علاقے میں وہ واحد ماں نہیں تھیں جن سے یتیم خانے نے رابطہ کیا، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ یتیم خانہ ایک ڈچ تنظیم چلا رہی تھی۔
نورجہاں بیگم نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے بچوں کی مناسب دیکھ بھال کر کے ہمارا اعتماد حاصل کیا۔ وہ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بچوں کی دیکھ بھال کرتے تھے لیکن کچھ دنوں کے بعد زیادہ تر بچے غائب ہو گئے۔‘
’میں نے یتیم خانے کو بار بار منتیں کیں کہ میرا بچہ واپس کر دیا جائے لیکن میری منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔‘
انہوں نے مقامی حکام اور فوج سے اپیل کی۔ اُس وقت کیس میں بعض مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن بیگم کو اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہو سکا۔
کچھ عرصے بعد بتایا گیا کہ ان کا بیٹا سیکنڈری سکول مکمل کرنے کے بعد ان کے پاس واپس آ جائے گا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
ان کو اب 75 برس کی عمر میں اپنے بیٹے کے واپس آنے کا انتظار ہے۔ ’میں صرف ایک ہی چیز چاہتی ہوں کہ میں اپنے بیٹے کو واپس لاؤں۔‘

غیرملکی خیراتی ادارہ بچوں کو گود لیتا تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

گزشتہ برس دسمبر میں بنگلہ دیشی حکام کی جانب سے ٹونگی میں بچوں کے اغوا کی تحقیقات شروع کی گئی تھی جب برطانوی اخبار دی گارڈین نے بنگلہ دیشی بچوں کو 1970 کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ میں ’غیرقانونی طریقے سے گود لیے جانے‘ کے بارے میں رپورٹ کیا تھا۔
سپیشل برانچ کے سپیشل سپرنٹنڈنٹ مشروف حسین نے کہا کہ زیادہ تر والدین کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سرکاری مدد کیسے حاصل کی جائے اور ان کے بچوں نے حال ہی میں اپنی شناخت کی چھان بین شروع کی۔
’ان والدین کو یہ پیشکش کی گئی تھی کہ ان کے بچوں کی پرورش بہتر حالات میں ہو گی اور وہ بنگلہ دیش میں ہی رہیں گے۔ ہم نے سنا ہے کہ کچھ معاملات میں والدین کو خالی کاغذات پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت پیچیدہ اور وقت طلب معاملہ ہے کیونکہ ہمیں 50 سال قبل ہونے والے واقعات کی تفصیلات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت آسان نہیں ہے۔ اُن دنوں کے بہت سے ریکارڈ غائب ہیں، بہت سے لوگ مر چکے ہیں۔‘
ان کی ٹیم نے 25 ایسے افراد کے ساتھ رابطے کیے جنہوں نے بچے گود لیے تھے۔ ان میں سے چار پہلے ہی بنگلہ دیش میں اپنے خاندانوں کے ساتھ مل چکے ہیں۔ 
ان کو یقین ہے کہ کیسز کی اصل تعداد ’بہت زیادہ‘ ہے اور ہالینڈ میں صرف بنگلہ دیش سے گود لیے گئے لوگوں کی ایک ایسوسی ایشن کے 500 ارکان ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اُن دنوں بنگلہ دیش سے نہ صرف وار بے بیز کو گود لیا جاتا تھا بلکہ دوسرے بچے بھی وار بے بیز کے بھیس میں گود لیے گئے۔ ’اب ہم جن مقدمات کو دیکھ رہے ہیں وہ ٹونگی کے بچوں کے ہیں، جو وار بے بیز نہیں تھے۔‘

بنگلہ دیشی حکومت بیرون ملک بچوں کو تلاش کر رہی ہے۔ (فوٹو: دی گارڈین)

70 برس کے رحمان خا ایک رکشہ ڈرائیور کے طور پر کام کر رہے تھے تھے جب ٹونگی چلڈرن ہوم نے ان کی اہلیہ رضیہ سے رابطہ کیا جس نے اپنی ایک برس کی بیٹی نسیمہ بیگم کو خیراتی ادارے کی دیکھ بھال میں دینے پر رضامندی ظاہر کی۔
بچی خیراتی ادارے میں رہی اور انہیں باقاعدگی سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن ایک ماہ بعد وہ لاپتہ ہو گئیں۔
’میں نے یتیم خانے کے حکام سے اس کے ٹھکانے کے بارے میں پوچھا۔ مجھے بتایا گیا کہ انہیں معلوم نہیں کہ اسے کہاں منتقل کیا گیا ہے۔‘
ان کی اہلیہ کا گزشتہ سال انتقال ہو گیا، وہ بچی کو خیراتی ادارے کو دینے کے فیصلے پر اپنے آخری دن تک غمزدہ رہیں۔

شیئر: