اس وقت محمد یونس کو کئی ایک مقدمات کا سامنا ہے جن کے بارے میں اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔
83 سالہ ماہر معاشیات نے عدالت کے باہر رپورٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارا خواب ایک نئی دنیا کی تعمیر ہے۔‘
حسینہ واجد نے ان پر غریبوں کا ’خون چوسنے‘ کا الزام لگایا ہے۔
حسینہ واجد 2006 میں نوبل امن انعام حاصل کرنے والے محمد یونس کے خلاف سخت زبانی حملے بھی کرتی رہی ہیں۔
محمد یونس کو سزا یکم جنوری کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے کیس میں سنائی گئی تھی لیکن وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف 170 دیگر کیسز بھی درج ہیں جن میں کرپشن کے کیسز بھی شامل ہیں۔
یونس نے رہائی کے بعد جذباتی خطاب میں کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کو ان کے لیے وقف کیا ہے جو کہ انتہائی ضرورت مند اور غریب ہیں اور وہ اس مشن کو جاری رکھیں گے۔
پیر کو پراسکیوٹر خورشید عالم خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’پروفیسر یونس سمیت گرامین ٹیلی کام کمپنی کے تین دیگر عہدے داروں کو لیبر قوانین کے تحت چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے بعد محمد یونس نے درخواستِ ضمانت دائر کی جو منظور کر لی گئی ہے اور اب وہ ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔‘
محمد یونس کون ہیں؟
83 سالہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کو اپنے مائیکرو فنانس بینک ’گرامین‘ کے ذریعے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے کا سہرا جاتا ہے لیکن طویل عرصے سے وزیراعظم کے عہدے پر فائز شیخ حسینہ واجد انہیں اپنا حریف سمجھتی ہیں۔
ماہر اقتصادیات یونس اور گرامین ٹیلی کام کے تین ساتھیوں پر قائم مقدمے ان پر الزام تھا کہ وہ کمپنی میں ورکرز ویلفیئر فنڈ بنانے میں ناکام رہے۔
ان چاروں نے حکومت کے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
محمد یونس کو لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں اور مبینہ بدعنوانی کے 100 سے زائد دیگر الزامات کا بھی سامنا ہے۔
محمد یونس نے گزشتہ ماہ ہونے والی ایک سماعت کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے بنگلہ دیش میں قائم کردہ 50 سے زیادہ سوشل بزنس فرموں میں سے کسی سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔