Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نئی حکومت گذشتہ حکومت کا ہی تسلسل مگر کمزور ہوگی‘

’شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں اور مقتدرہ کے قریب خیال کیے جاتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ پاکستان کی اعلان کردہ نئی اتحادی حکومت 2022 کے حکومتی اتحاد کا تسلسل دکھائی دیتی ہے جس نے عمران خان کو اقتدار سے نکالا تھا جب کہ مقتدرہ کا اثرورسوخ نمایاں ہونے کے علاوہ سابق وزیراعظم عمران خان کی اپوزیشن رہنما کے طور پر طاقت بھی عیاں ہوئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گذشتہ ہفتے ہونے والے عام انتخابات میں اگرچہ کسی سیاسی جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہوئی۔
تاہم جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی حیران کن ہے جنہوں نے مقتدرہ کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سامنا کیا ہے، تاہم ان نومنتخب ارکان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
مقتدرہ کی حمایت یافتہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے منگل کی شب یہ کہا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور کچھ دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔
سیاسی تجزیہ کار حفصہ خواجہ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حالات بظاہر تبدیل ہوئے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سیاسی منظرنامہ سردست جوں کا توں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ پرانا سیٹ اپ ہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس پر اب انتخابات کی مہر لگ گئی ہے۔‘
گذشتہ حکومت کا کمزور تسلسل
عمران خان کے حامیوں کو حاصل ہونے والی بڑے پیمانے پر حمایت کا مطلب ایک بار پھر حکومت بنانے کے لیے پارلیمان میں بڑے پیمانے پر اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والی حکومت گذشتہ حکومت سے کمزور ہو گی۔
سنہ 2023-2022 کی حکومت میں وزیر خارجہ رہنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ کہا ہے کہ ’ان کی پارٹی اس بار وزارتیں نہیں لے گی، تاہم ’ایشو ٹو ایشو‘ وزیراعظم کی حمایت کرے گی۔‘
اگرچہ فی الحال بہت سے معاملات طے ہونا باقی ہیں جن میں آصف زرداری کی ایوان صدر میں ممکنہ واپسی بھی شامل ہے۔

فی الحال بہت سے معاملات طے ہونا باقی ہیں جن میں آصف زرداری کی ایوان صدر میں ممکنہ واپسی بھی شامل ہے (فائل فوٹو: ایوان صدر)

تجزیہ کار عنبر رحیم شمسی کہتی ہیں کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی اگر وزارتیں نہیں لیتی تو ایک اقلیتی حکومت قائم ہوگی جو گذشتہ اتحاد کا تسلسل ہو گی مگر بہت زیادہ ’کمزور‘ ہوگی۔
پاکستان اس وقت معاشی سست روی کا سامنا کر رہا ہے اور نئی حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
عنبر رحیم شمسی نے مزید بتایا کہ ’برسراقتدار آنے والی کسی بھی حکومت کو بہت زیادہ غیر مقبول اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی خود کو طویل المدتی تناظر میں اس صورت حال سے دور رکھ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ دو برس قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کریک ڈاؤن کے باعث کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا پائے گی۔
عمران خان نے جب مقتدرہ پر تنقید کی جو ان کو حکومت میں لائی تھی تو ان کے خلاف عدالتی مقدمات قائم کیے گئے اور انہیں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ لینے سے روک دیا گیا جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا اور انہیں آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے حامی امیدواروں نے منتخب اسمبلی کی 266 میں سے 90 کے قریب نشستیں حاصل کی ہیں، یوں ایک مضبوط اپوزیشن بلاک بن گیا ہے جو  آنے والی کسی بھی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہے گا۔

مقتدرہ کے کریک ڈاؤن کے باوجود عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی حیران کن ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

حفصہ خواجہ کے مطابق ’مقتدرہ نے پارٹی کو توڑنے کی کوشش کی لیکن اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود پارٹی اب بھی قائم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اگرچہ کمزور ہوئی ہے، تاہم یہ ختم نہیں ہونے جا رہی۔‘
مقتدرہ کی قومی منظرنامے میں موجودگی
پاکستان کی تاریخ کے زیادہ عرصہ فوج کی حکمرانی رہی ہے اور سویلین ادوار میں بھی یہ بادشاہ گر کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔
حفصہ خواجہ کہتی ہیں کہ ’ن لیگ نے کہا ہے کہ شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے لیے ان کے امیدوار ہیں، انہوں نے سابق وزیراعظم کے خلاف اتحاد کی قیادت کی تھی اور وہ مقتدرہ کے قریب خیال کیے جاتے ہیں۔‘
تجزیہ کار اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک کمزور اتحادی بندوبست ہی مقتدرہ کے لیے موزوں ہو گا جو عمران خان کی جارحانہ طرز سیاست کے بعد سویلین معاملات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔
اسلام آباد کے تھنک ٹینک سنوبر انسٹی ٹیوٹ سے منسلک قمر چیمہ کہتے ہیں کہ ’مقتدرہ کو ان سیاست دانوں کے حوالے سے مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
پی ٹی آئی نے اگرچہ توقعات سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے لیکن پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ ان کی لینڈسلائیڈ فتح کو روکنے کے لیے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔
قمر چیمہ نے مزید کہا کہ ’مقتدرہ منتخب سیاست دانوں پر انحصار کر رہی ہے تاکہ دیرپا استحکام قائم کیا جا سکے اور اس وقت تک یہ حکومت کاردکردگی نہیں دکھا پائے گی جب تک اسے عوام کی حمایت حاصل نہ ہو۔‘

شیئر: