قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے تلخی ایوان میں پہنچ گئی
قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے تلخی ایوان میں پہنچ گئی
جمعرات 29 فروری 2024 12:50
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سکیورٹی اور سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ مہمانوں کو پاس جاری نہیں کیے گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی 16ویں قومی اسمبلی نے اپنے پہلے اجلاس سے کام کا آغاز تو کر دیا ہے لیکن جب نو منتخب اراکین اسمبلی جمعرات کی صبح حلف اٹھانے کے لیے پہنچے تو اس سے پہلے ہی یہ اسمبلی تلخی کے ماحول میں گھِر چکی تھی۔
پاکستان میں ہونے والے تقریباً تمام انتخابات میں دھاندلی کا شور تو اٹھتا ہی رہا ہے لیکن اس مرتبہ تمام سیاسی جماعتیں پہلے دن سے ہی آٹھ فروری کے انتخابات کے متنازع ہونے سے متعلق بات کرتی آئی ہیں۔
اسی پس منظر میں جب الیکشن کمیشن کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوران کو شامل کرنے والی جماعت سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کا معاملہ قانونی چپقلش اختیار کر گیا تو اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں ہی اراکین کافی جذباتی تھے۔
سکیورٹی اور سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ مہمانوں کو پاس جاری نہیں کیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود وی آئی پی گیلیریز میں اچھی تعداد میں مہمان آئے اور اجلاس شروع ہونے سے پہلے اراکین کی بڑی تعداد، ان کے مہمانوں اور میڈیا کے اراکین کی وجہ سے پارلیمنٹ ہاؤس کے اردگرد اور اسمبلی ہال کے باہر کافی بدنظمی رہی۔
جب تمام اراکین ہال میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو سپیکر نے حلف لینے کے عمل کا آغاز کیا۔
حلف لینے کے فوراً بعد پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما گوہر اقبال، عمر ایوب، اور اسد قیصر اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور سپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی۔
اجازت نہ ملنے کے باوجود وہ کافی دیر تک مطالبہ کرتے رہے اور اسی دوران سنی اتحاد کونسل کے دیگر اراکین بھی عمران خان زندہ باد کے نعرے لگانا اور شور کرنا شروع ہو گئے۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے اراکین نواز شریف اور شہباز شریف کی تصویروں والے اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین عمران خان والی تصاویر کے پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے عمران خان کے حق میں نعروں کے جواب میں مسلم لیگ ن کے اراکین نے بھی کھڑے ہو کر نعرے لگانا شروع کر دیے اور دونوں جماعتوں کے اراکین نعرے لگاتے لگاتے سپیکر کے پاس ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔
اس دوران سپیکر نے اراکین کو حاضری لگانے کے لیے بلانا شروع کر دیا جس پر سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے خلافِ توقع اور پنجاب اسمبلی میں اپنائی گئی حکمت عملی کے برعکس واک آؤٹ نہیں کیا۔
تاہم صورتحال اس وقت دلچسپ ہو گئی جب سپیکر نے نواز شریف کو حاضری لگانے کے لیے بلایا اور وہ ن لیگ اور سنی اتحاد کونسل کے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے اراکین کے بیچ سے گزر کر سپیکر ڈائس کے پاس حاضری لگانے گئے۔
اس موقع پر جب ن لیگ کے اراکین نے ’دیکھو دیکھو کون آیا‘ کا نعرہ لگایا تو جواب میں سنی اتحاد کونسل والوں نے کہا کہ ’چور آیا چور آیا‘، اسی دوران ن لیگ والے ’گھڑی چور‘ کے نعرے بھی لگاتے رہے۔
جب نواز شریف حاضری لگا رہے تھے تو اس وقت کسی نے ان پر عمران خان کا ماسک پھینک دیا جو شہباز شریف کو جا کر لگا۔
جب پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو حاضری لگانے گئے تو ایوان میں جیے بھٹو کے نعرے بھی لگے۔
سنی اتحاد تحریک کے بیشر اراکین جب حاضری لگانے گئے تو انہوں نے عمران خان کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں یا پھر گلے میں تحریک انصاف کے رنگوں والے مفلر پہن رکھے تھے۔
تحریک انصاف کے سینیئر اراکین علی محمد خان اور عامر ڈوگر جب حاضری لگانے پہنچے تو انہوں نے اس کے بعد عمران خان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔
اس سارے عمل کے دوران آصف زرداری اور بلاول بھٹو اراکین سے ملتے رہے اور مولانا فضل الرحمان جو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے تھے، سے بھی جا کر متعدد حکومتی رہنماؤں نے علیک سلیک کی۔
مہمانوں کی گیلری میں موجود وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز اور آصفہ بھٹو نے ساری کارروائی براہ راست دیکھی۔
ابھی اسمبلی میں قائد ایوان، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہونا ہے لیکن اس کے پہلے اجلاس کے آغاز سے ہی اراکین کے مابین تلخی ماحول پر حاوی ہو گئی جو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں نہ صرف اسمبلی کے اندر بلکہ مجموعی طور پر بھی سیاسی ماحول بدستور گرم رہے گا۔