Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمشید جی ٹاٹا جن کے خواب نے آزادی کے بعد ہندوستان کو معاشی استحکام بخشا

جمشید جی ٹاٹا کو ’فادر آف انڈین انڈسٹری‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ (فوٹو: ٹاٹا گروپ)
آج سے تقریباً 185 سال قبل آج ہی کے دن ہندوستان کے علاقے گجرات کے نوساری میں ایک پارسی خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا تھا جس کا نام جمشید جی ٹاٹا رکھا گیا۔
اس بچے نے جوان ہو کر ایک ایسا بزنس ایمپائر کھڑا کیا جس کی مالیت آج پاکستان کی جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔
انہیں ’فادر آف انڈین انڈسٹری‘ کے طور پر جانا جاتا ہے اور وہ صنعت کی دنیا میں اتنے بااثر تھے کہ جواہر لعل نہرو نے انہیں ’ون مین پلاننگ کمیشن‘ کہا تھا اس کے ساتھ انھوں نے جمشید جی کو ہمت اور وژن کا ایک نادر مرکب بھی کہا تھا۔
آج ان کے نام پر نہ صرف درجنوں کمپنیاں ہیں بلکہ ان کے نام پر ایک شہر بھی ہے جس کا خواب انھوں نے دیکھا تھا لیکن اس کی تعبیر ان کے بیٹے نے کی تھی۔ وہ کئی معاملوں میں ہندوستان میں روح رواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے نہ صرف ہندوستان کو پہلی دیسی ہوائی سروس دی بلکہ سٹیل اور کپڑے بنانے کے کارخانے بھی دیے اور تاج محل ہوٹل کا ایک سلسلہ دیا جو انڈیا سمیت دنیا کے تقریبا ایک درجن ممالک میں موجود ہے۔
ٹاٹا گروپ آف انڈسٹریز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی کمپنی دنیا کی مخیر ترین کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے اور فلاحی اور تعلیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
اپنے والد کے ساتھ تقریباً 9 سال کام کرنے کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد 29 سال کی عمر میں جمشید جی ٹاٹا نے 21 ہزار روپے کے سرمائے کے ساتھ ایک تجارتی کمپنی شروع کی جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور ٹاٹا گروپ کی شکل اختیار کر گئی۔
جمشید جی ٹاٹا تین مارچ 1839 کو ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور ان سے پہلے کے لوگ پارسی مذہب کے عالم تھے اور اپنے دین کی خدمات میں لگے ہوئے تھے۔ ان کا خاندان غربت کا شکار تھا اور شاید اسی لیے جمیشید جی کے والد نوشیرواں جی ٹاٹا نے تجارت کے میدان میں قدم رکھا۔ اور وہ تجارت کے سلسلے میں بمبئی آ گئے جو کہ اب ممبئی ہے۔

تاج محل ہوٹل بھی ٹاٹا گروپ کی ملکیت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

14 سال کی عمر میں والد کے ساتھ ممبئی آ گئے۔ 17 سال کی عمر میں انہوں نے ایلفنسٹن کالج ممبئی میں داخلہ لیا۔ دو سال بعد 1858 میں گرین سکالر (گریجویٹ سطح کی ڈگری) بن گئے۔ ان کی زندگی کے بڑے اہداف میں ایک سٹیل کمپنی کھولنا، دنیا کا مشہور سٹڈی سینٹر قائم کرنا، ایک منفرد ہوٹل کھولنا اور ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ لگانا شامل تھا۔
لیکن کہا جاتا ہے کہ انھیں جب ایک ہوٹل سے نکال دیا گیا تو انھوں نے ہندوستان کا سب سے شاندار ہوٹل کھولنے کا تہیہ کر لیا جو تاج محل ہوٹل کی صورت میں ساحل سمندر پر موجود ممبئی کے گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے موجود ہے۔
اس ہوٹل کو بیسویں صدی کے اوائل میں چار اعشاریہ 21 کروڑ روپے میں بنایا گیا تھا۔ یہ ہندوستان کا پہلا ہوٹل تھا جس میں بجلی تھی، پنکھا تھا اور خانسامنے گورے تھے۔
جمشید جی کے بیٹے دوراب جی ٹاٹا نے 1907 میں ملک کی پہلی سٹیل کمپنی ٹاٹا سٹیل اینڈ آئرن کمپنی (ٹسکو) کھولی۔ یہ اس وقت ہندوستان کی واحد کمپنی تھی جس نے اپنے ملازمین کو پنشن، رہائش، طبی سہولیات اور دیگر بہت سی سہولیات فراہم کیں۔
اس کے لیے ایک شہر آباد کیا گیا جو پہلے صوبہ بہار میں تھا لیکن اب یہ جھارکھنڈ میں ہے۔ اس کا نام ٹاٹا بزنس گروپ کے بانی جمشید جی کے نام پر جمشید پور رکھا گیا۔ اس شہر کا خاکہ ہندوستان کا پہلا منصوبہ بند شہر تھا جس کی سڑکیں کشادہ تھیں اور طبی سہولیات کے ساتھ تعلیمی ادارے اور مذہبی عمارتیں بھی بنائی گئیں۔

دوراب جی ٹاٹا نے 1907 میں ملک کی پہلی سٹیل کمپنی ٹاٹا سٹیل اینڈ آئرن کمپنی کھولی۔ (فوٹو: ٹاٹا گروپ)

آج انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس یعنی بنگلور کا آئی آئی ایس سی دنیا کے مشہور اداروں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے ہی اس کے قیام کا خواب دیکھا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے اپنی آدھی سے زیادہ جائیداد عطیہ کی، جس میں ممبئی میں 14 عمارتیں اور چار جائیدادیں شامل تھیں۔
کینسر کے مریضوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ٹاٹا میموریل ہسپتال ممبئی میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں نہ جانے کتنے تعلیمی ادارے اور کھیل کے شعبے میں ٹاٹا کی امداد شامل ہے۔
سنہ 1869 میں انھوں نے بمبئی کے چنچپوکلی میں ایک دیوالیہ آئل مل کو خریدا اور اسے کاٹن مل میں تبدیل کر دیا اور اس کا نام تبدیل کر کے الیگزینڈرا مل رکھا لیکن دو سال بعد مل کو اچھے خاصے منافع کے ساتھ بیچ دیا۔
1874 میں انہوں نے دیڑھ لاکھ روپے کی لاگت سے سینٹرل انڈیا سپننگ، ویونگ اینڈ مینوفیکچرنگ کمپنی کے نام سے ایک نیا کاروبار شروع کیا۔
تین سال بعد یکم جنوری 1877 کو ملکہ وکٹوریہ کو ہندوستان کی مہارانی قرار دیا گیا اور اسی دوران انہوں نے ناگپور میں ایمپریس ملز قائم کی۔
1892 میں انہوں نے جے این ٹاٹا انڈومنٹ قائم کیا جس نے ہندوستانی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔
انھوں نے ہیرا بائی ڈابو سے شادی کی جن سے دو بچے دوراب جی اور رتن جی پیدا ہوئے جو بعد میں ٹاٹا گروپ آف کمپنیز کے چيئرمین بنے۔ 19 مئی 1904 میں جرمنی کے شہر بیڈ نوہیم میں وفات پا گئے لیکن انھیں انگلینڈ کے پارسی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
ہندوستان کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے ٹاٹا کے بارے میں کہا: ’جہاں بہت سے لوگوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور آزادی کی صبح کی طرف مارچ کو تیز کرنے پر کام کیا وہیں ٹاٹا نے آزادی کے بعد کی زندگی کے لیے خواب دیکھا اور کام کیا۔ ٹاٹا نے بہتر زندگی اور معاشی آزادی کے لیے کام کیا۔
یہاں تک کہ انگریز وائسرائے لارڈ کَرزن نے کہا کہ ’موجودہ نسل کے کسی ہندوستانی نے ہندوستان کی تجارت اور صنعت کے لیے ان سے زیادہ کام نہیں کیا‘ اور آج زندگی کے مختلف شعبے میں جمشید جی اور نوشیرواں جی ٹاٹا کے خوابوں کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔

شیئر: