Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابینہ کی تشکیل: پی ٹی آئی کے لیے مفاہمت کی خبر نہیں، اجمل جامی کا کالم

اسحاق ڈار کو شاید جلیل عباسی جیلانی اور طارق فاطمی کی معاونت بھی دستیاب رہے (فوٹو: ایکس)
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی  افراتفری کا حل چناؤ ہوا کرتے ہیں۔ تازہ مینڈیٹ، نئی سرکار، نئی امید نئی سمت بہر حال کسی حد تک استحکام کی نوید ہوا کرتے ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں حالیہ انتخابات تاحال یہ تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سرکار بن گئی اور اب کابینہ بھی تشکیل پا چکی۔
آٹھ فروری کو اب ایک  ماہ سے زائد کا وقت بیت چکا۔ لیکن کیا نئی سرکار سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کی جانب بھی جاتی دکھائی دیتی ہے؟ بظاہر تو فی الحال ریاستی بندوبست کی آشیر باد کے ذریعے حکومتی استحکام  ہی مطلوب و مقصود دکھائی دیتا ہے۔
لیکن کیا ایسا حکومتی استحکام سیاسی و معاشرتی استحکام کا بھی ضامن ثابت ہوگا؟ جواب جاننے کے لئے فقط کابینہ کی تشکیل اور اس میں شامل ذمہ داران کی پروفائل ہی خاطر خواہ سندیس دینے کے لیے کافی ہے۔
جام کمال، امیر مقام اور خالد مقبول صدیقی وہ تین نام ہیں جو بالترتیب بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تینوں  سسٹم کے ساتھ شیر و شکر ہونے کی اپنی صلاحیت کی بنا پر بھی ہمہ وقت تعریف کے حامل ہیں۔ 
19 رکنی اس وفاقی کابینہ میں 12  منتخب ایم این ایز بھی ہیں، ان 12  میں سے اکثریت کا تعلق سنٹرل پنجاب سے ہے، خواجہ آصف سیالکوٹ، احسن اقبال نارووال، رانا تنویر شیخوپورہ، چوہدری سالک گجرات، قیصر احمد شیخ چنیوٹ، علیم خان لاہور، عطا تارڑ گجرانوالہ، سیینٹرز کی تین رکنی فہرست میں اسحاق ڈار لاہور، مصدق ملک اسلام آباد اور اعظم نذیر حافظ آباد شامل ہیں، دیگر تین نئے ناموں میں سے بھی محمد اورنگزیب کے علاوہ محسن نقوی اور احد چیمہ بھی لاہور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
واحد اکلوتی وزیر مملکت شزا فاطمہ بھی سیالکوٹ سے ہیں۔  یعنی کیا سینٹرل پنجاب کے علاوہ منتخب ارکان اسمبلی میں کوئی بھی نیا چہرہ، نیا نام یا قدرے پرانا کوئی سیاستدان ایسا نہ تھا کہ جسے وفاقی کابینہ میں شامل کیا جاتا؟
نمائندگی کے نام پر جنوبی پنجاب سے بہرحال اویس لغاری اور ریاض حسین پیرزادہ کابینہ کا حصہ ہیں۔  معاشرہ بری طرح سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔

عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی  افراتفری کا حل چناو ہوا کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)

ن لیگ ایک عرصے سے موروثیت، گھرانوں اور وسطی پنجاب کے طعنوں سے یاد کی جاتی ہے لہذا کیا ہی اچھا ہوتا اگر ملک کے طول و عرض سے ہر اہم  ڈویژن سے کابینہ میں نمائندگی کو یقینی بنایا جاتا کہ کچھ امید افزا سیاسی اشاریے ہی دیکھنے کو مل جاتے۔ 
اسی فہرست کا جائزہ اگر کچھ نئے ناموں کے حوالے سے لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ محمد اورنگزیب خزانہ کی ذمہ داری سنبھالیں گے،  اسحاق ڈار کی خزانہ سے چھٹی اور اورنگزیب صاحب کی انٹری واضح پیغام ہے کہ ریاست اور شہباز شریف باہمی ربط سے معاملات بڑے میاں صاحب کی طریقت کے بجائے کسی اور ڈھب سے نبھانا چاہتے ہیں۔
ایک بات ان کی مان لی گئی اور دوسری میاں صاحب کی، شاید یہی وجہ ہے کہ اب ڈار صاحب خزانہ کی بجائے خارجہ امور میں چمتکار دکھائیں گے۔ وزارت خارجہ کے افسران کے ہاں اسی کارن خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔
لیگی حلقے دلیل میں کہتے ہیں کہ ڈار صاحب کے خلیجی دوست ممالک کے حکام سے ذاتی تعلقات ہیں لہذا خارجہ کے محاذ پر وہ واقعی مثبت نتائج برآمد کرسکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جس کا خارجہ امور سے سرے سے ہی کوئی تعلق نہ رہا ہو وہ بھلا کیسے  یورپی یونین، اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ، انڈیا اور دیگر سرکردہ فورمز پر  کارہائے نمایاں سر انجام دے گا؟
گو کہ اس  فرمائشی پروگرام میں شاید انہیں جلیل عباسی جیلانی اور طارق فاطمی کی معاونت بھی دستیاب رہے لیکن ہیچ آرزو مندی۔
شنید ہے کہ پی پی جب اگلے فیز میں کابینہ کا حصے بنے گی تو بلاول کی خارجہ امور میں واپسی کو یقینی بنایا جائے گا  تب تلک جناب ڈار صاحب ہی خارجہ محاذ پر گُل کھلاتے نظر آئیں گے۔  
جناب محسن نقوی نگران وزیراعلٰی پنجاب رہے، بروقت چئیرمین پی سی بی لگے اور ساتھ ہی وفاقی کابینہ میں آن براجمان ہوئے، خاصے خوش بخت ہیں۔
وزارت داخلہ کا محاذ ان کی نئی ذمہ داری ہوگی۔  یہ وہ ترکیب ہے جس کو دیکھتے ہوئے سیانے سمجھتے ہیں کہ نظام کپتان کیساتھ فی الحال مفاہمت کا دروازہ کھولنے کا ارادہ نہیں رکھتا وگرنہ نقوی صاحب شاید وزارت داخلہ کے ذمہ دار نہ ہوتے۔ نقوی صاحب اور ان کو دی گئی حالیہ تمام ذمہ داریاں ایک استعارہ سمجھی جاتی ہیں۔ سسٹم البتہ جناب نقوی صاحب کی پرفارمنس سے انتہائی مطمئن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل سسٹم کیساتھ وابستہ ہیں اور سسٹم کا کلیدی حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ 

محمد اورنگزیب صاحب کے لیے البتہ چند ہفتے مشکل ہوں گے۔ (فوٹو: وزارت خزانہ)

محمد اورنگزیب صاحب کے لیے البتہ چند ہفتے مشکل ہوں گے،  کیونکہ جب تک وہ سینیٹر منتخب نہیں ہوجاتے وہ اعلی سطحی اجلاسوں کی سربراہی نہیں کر پائیں گے۔ اس دوران غالباً شہباز شریف بحثیت وزیر اعظم اہم اقتصادی فورم کی سربراہی کا بار اٹھاتے رہیں گے۔ ڈار صاحب کی بجائے اورنگزیب صاحب کو خزانے کی چابی کا دیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ سسٹم اہم ترین فیصلوں اور پوسٹوں کے حوالے سے بھر پور سرایت کر چکا ہے۔   
داخلہ، خزانہ اور ایس آئی ایف سی  کے محاذ پر سسٹم کی مضبوط گرفت اس نظام کی ہیئت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔  کیونکہ اگر ماضی کی سرکار ہائبرڈ کہلاتی تھی تو موجودہ ہائبرڈ پلس۔
ان گنت چیلنجز میں گھرے وطن عزیز کے لیے اب یہ تجربہ کر دیکھنا بھی شاید لازم ہوچکا تھا۔ سیاسی حکومتیں  ماضی میں جب جب ناکام ہوئیں تو انہی اہم محاذوں کا ملبہ بھی انہی پر گرا کرتا تھا۔
اب شہباز سرکار کے لیے البتہ صورتحال مختلف اس لئے ہوگی کہ اب ملبہ محض ان پر نہیں گرے گا۔ سسٹم اور شہباز سرکار کے لیے ڈلیور کرنا اب از حد لازم ہوگا بصورت دیگر ملبہ کون اٹھائے گا؟  یہی وجہ ہے کہ سسٹم ہو یا سیاسی سرکار، اگر مگر اورسیاسی نتائج کی پروا کیے بغیر اب ایک خاص ڈگر پر گامزن ہوتی دکھائی دیتی ہے جس میں شامل ذمہ داران  کی تازہ تعیناتیاں فی الحال پی ٹی آئی کے لیے مفاہمت کا پیغام نہیں دے رہیں۔
اگر کپتان نے کے پی کا محاذ علی امین گنڈا پور کو سونپ کر اپنی ترجیحات اور سوچ کا اظہار کر دیا تھا تو جواب میں نئی سکیم انہیں بھی کچھ ایسا ہی پیغام دے رہی ہے۔ 
اس دوران سوال مگر وہی ہے کہ سسٹم کی آشیر باد سے مزین بظاہر مستحکم سرکار کیا سیاسی استحکام کا ضامن بھی بن پائے گی؟  کیونکہ؛ 
غازی آباد بھارت کے شاعر راج کوشک نے کہا تھا۔ 
سہارے بھی اس کے کنارے بھی اس کے 
مگر ہم جو ڈوبے اشارے بھی اس کے۔۔۔

شیئر: