نو مئی ہوچکا تھا، خان سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگتنے کے بعد زمان پارک واپس براجمان تھے، چند صحافیوں کو ملاقات کے لیے یاد فرمایا۔ ڈرائنگ روم یا گھر کے اندر ملاقات کے بجائے باہر کوریڈور میں صحن کے ساتھ بیٹھک ہوئی، تھکاوٹ کے آثار چہرے پر نمایاں تھے، گمان تھا کہ سانحہ نو مئی کے بعد پریشان ہوں گے اور نئی حکمت عملی پر بات چیت کرنا مقصود ہوگا۔
گفتگو کے آغاز میں تو وہ قدرے نالاں اور مایوس دکھائی دیے، لیکن جیسے ہی ملاقات کے لیے آئے ’صحافیوں‘ نے ان کا جذبہ ابھارا، وہ فوراً توانا ہوگئے۔ یہ صرف ان کا مسئلہ نہیں، نواز ہوں یا شہباز، مریم ہوں یا بلاول، ان سب کے ہاں سوال اور تکرار کے بجائے تعریف اور تعمیل ہی کی قبولیت ہوا کرتی ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ اس روز بھی آٹھ دس صحافیوں میں سے صرف خاکسار اور برادرم امیر عباس وہ دو تھے جنہوں نے بار بار جناب خان صاحب کی خدمت میں سوال اٹھائے، صورتحال کا ادراک کرنے کی جانب توجہ مبذول کروائی اور ان سے پوچھا کہ سیاستدان ڈیڈ اینڈ سے حل نکالا کرتے ہیں، آپ ڈیڈ اینڈ کی جانب کیوں جا رہے ہیں؟ خان تاہم تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ دیگر جید اور عالم فاضل ہستیوں نے جناب خان کو اس حد تک ’پمپ‘ کیا کہ تھکے ہارے اور بے خوابی کا شکار جناب خان کی آنکھیں انقلاب کی بشارتیں سن کر چمک اٹھیں۔
مزید پڑھیں
-
ورلڈ کپ میں ناکامی اور عمران خان کا مشورہ، اجمل جامی کا کالمNode ID: 811641