Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف بنام عمران خان: اجمل جامی کا کالم

عمران خان کے دورِ اقتدار کے آغاز پر نواز شریف جیل میں تھے اور پھر علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے: فائل فوٹو اے ایف پی
السلام علیکم عمران خان صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں جانتا ہوں آپ قید تنہائی میں ہیں، لیکن ویسی نہیں جو میں بھگت چکا ہوں۔
 آپ وہاں ہیں جہاں کبھی میں تھا، میں وہاں ہوں جس کی خواہش لے کر میری واپسی نہیں ہوئی تھی۔ لندن تھا تو خواب کچھ اور تھے، واپس آیا تو قدرے مختلف حقیقت سے واسطہ پڑا۔ اب جب کہ وزیراعظم میں ہوں نہ آپ، تو سوچا کیوں نہ حالیہ چند دنوں کے دوران تنہائی کے  ہنگام آنے والے چند خیالات آپ کو لکھ بھیجوں۔
وزارت اعلیٰ سے لے کر وزارت عظمی تک ، جیل سے محل تک، محل سے دوبارہ جیل تک، کیا غم نہیں جو مجھے نہیں جھیلنا  پڑے۔ والدین چل بسے، وطن سے دوری ہوئی، میری واحد غم گسار کلثوم کا ساتھ بھی نہ رہا۔ آپ کا دو ر تھا تو میرے ساتھ میری بیٹی مریم بھی جیل میں تھی۔ ماضی میں جھانکتا ہوں تو غم مجھے جھنجوڑتا ہے۔ کیا اقتدار کی سزا یہ سب ہے؟ سیاسی انتقام آخر کب تک؟
ابھی آپ بھی کیا یہی سب نہیں بھگت رہے؟ اہلیہ قید میں ہیں، بہنیں سڑکوں پر ہیں، اہل خانہ کرب میں ہیں، ورکرز مشتعل ہیں، سینکڑوں مقدمات آپ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ سیاست کے نام پر یہ سب آخر کب تک چلے گا؟  
کیا مجھے جیل بھیج کر، وطن سے دور کر کے، اہل خانہ کو جیلوں میں ڈال کر، ملکی مسائل حل ہوئے؟ اور کیا آپ کو حوالہ زندان کر کے اب ملکی مسائل حل ہو جائیں گے؟ ہم نے یہ سب پیپلزپارٹی کے ساتھ کر دیکھا، بدلے میں بھگت بھی لیا۔
پھر بی بی زندہ تھیں تو ہمیں ادراک ہوا کہ یہ مشق کار لاحاصل ہے۔ مل بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت کی داغ بیل ڈالی۔ کون کہاں غلط تھا کہاں صحیح تھا، اب یہ سوال بھی بے سود ہے۔ ہم کہاں آن پہنچے ہیں اس کا ادراک ماضی  میں جھانکنے کے بجائے زیادہ لازم ہوا چاہتا ہے۔  
ملک ڈیفالٹ کے قریب ہے، غریب کے لیے دو وقت کی روٹی پورا کرنا محال ہو چکا، بجلی گیس اور اشیائے ضروریہ پہنچ سے باہر ہو چکیں۔ سیاسی اور سماجی دھاگے ٹوٹ چکے، معاشرہ جو کبھی مذہب کے نام پر تقسیم تھا اب سیاست کے نام پر شدید تقسیم کا شکار ہے۔ لوگوں کی رشتہ داریاں، پریم کہانیاں، سانجھے داریاں سیاست کے نام پر اُجڑ رہی ہیں۔
معاشرتی روایات عجب تضادات کا شکار ہوچکیں۔ راہ چلتا عام شہری سیاسی سیاہی کے نام پر سیاسی سپاہی بن چکا ہے۔ نوجوان بالخصوص عجب بے چینی اور بے اعتمادی کا شکار ہو چکا ہے۔  
ایسے میں سوچتا ہوں کہ ہم سب سیاستدانوں نے اقتدار کی رسہ کشی کے ہنگام آخر کیا کمایا ہے؟ ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنا؟ عزیز و اقارب اور اہل خانہ کو مسلسل کرب میں مبتلا رکھنا؟ ایک دوسرے کو چور ٹھہرانا؟ ان نعروں کے نام پر اپنے اپنے ووٹر سپورٹر کو گمراہ کرنا؟ سیاست خدمت تھی، عبادت تھی اور اب؟
اسی عبادت کے نام پر ہم اپنے چاہنے والوں کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے نعرے  بھوکے پیاسے اور سکون کے لیے ترستے عوام کو واقعی تشفی دے سکتے ہیں؟  جواب ہے، نہیں!  
تو پھر ایسے میں آپ اور میں کیا کرسکتے ہیں؟ جو ہوتا رہا اسی کا حصہ بنے رہیں یا پھر اب کسی نئے عہد کا آغاز کریں؟  
آپ سے مجھے لاکھ شکوے ہیں، لاکھ گلے ہیں، لاکھ سیاسی اختلافات ہیں اور آپ کو مجھ سے۔ لیکن آج جہاں ہم پہنچ چکے ہیں کیا وہاں ذاتی گلوں شکووں کے نام پر سیاست جاری رکھنے کی گنجائش باقی بچی ہے؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچو عمران! کیا اس سب کی گنجائش اب بھی باقی ہے؟  
انتخابات کے نتائج آئے تو میں نے اگلی رات تنہائی میں گزاری، بستر سے اٹھا، کھڑکی جو باہر لان میں کھلتی ہے اس کے پاس رکھی کرسی پر رات گئے بیٹھا رہا، یہی سوال جو آپ کے سامنے رکھے، پہلے اپنے آپ سے پوچھے۔
ایک طرف میرا ذاتی غم تھا اور ایک طرف عوام۔ کبھی میرا غم حاوی ہوا تو کبھی عوام کا۔ یہاں رائیونڈ کے گرد و نواح میں دیہات ہیں، پچھلے پہر خاموشی گہری ہوتی ہے، اذان کی آواز شہر کی نسبت یہاں زیادہ بااثر محسوس ہوتی ہے۔
جیسے ہی پہلی اذان ہوئی تو میں اٹھا، وضو کیا، رب کے حضور پیش ہوا۔ پھر واپس اسی کرسی پر آن بیٹھا، نماز رقت میں ادا ہوئی تو جذبات سُچے ہو چکے تھے، دوبارہ یہی سوال اپنے سامنے رکھا۔ اس بار جواب  ذاتی غم کے بجائے عوامی غم کی پاسداری پر مبنی ہے۔ بس یہ وہ لمحہ تھا جب میں ٹھان لی کہ آپ کے نام خط لکھوں گا۔ 

دن چڑھا، نتائج کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ تھا، پارٹی کے کئی متعمدین کا خیال تھا ن لیگ کو حکومت نہیں لینی چاہیے، واضح مینڈیٹ نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی نے آپ سے رابطے کی کوشش کی، آپ نے انکار کر دیا۔
ایسے میں ہم بھی انکار کر دیتے تو کون ملک سنبھالتا؟  شہباز ہمیشہ سے ہی وضع دار ریاستی اداروں کے ساتھ بہتر ربط کے ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ملک مزید عدم استحکام کا شکار نہیں ہوسکتا لہذا فیصلہ کیا کہ کڑوا گھونٹ بھرتے ہوئے سرکار سنبھالی جائے۔
اس بیچ حضرت مولانا بھی ناراض ہوئے، اچکزئی بھی روٹھ گئے، آپ بھی مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔ تو ایسے میں اس خط کے توسط سے میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم سب ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر نظام بچاتے ہوئے عوام نہ بچا لیں؟  سیاسی اختلاف جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں، انہیں اپنی جگہ رکھتے ہوئے کیا ہمیں عوامی مسائل اور ملک کو درپیش چیلنجز کے لیے کچھ بنیادی مدعوں پر اتفاق رائے نہیں کر لینا چاہیے؟  
کیا اب وہ وقت نہیں آن پہنچا جب ہمیں ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے؟ ایک دوسرے کے قدموں تلے زمین کھینچتے رہے تو مضبوطی صرف غیر جمہوری طاقتوں کی ہو گی، غیر جمہوری طاقتیں مضبوط ہوتی رہیں تو جمہوریت اپنا مقدمہ ہار جائے گی، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ ہم آخر میں ایک دوجے کا منہ تکتے رہ جائیں گے۔  
میں جانتا ہوں آپ محب وطن ہیں، آپ کو بھی عوام کا دکھ  درد ہے، آپ بھی جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں لیکن جمہوری طاقتوں کو تسلیم کیے بغیر آپ مسلسل کہیں اور دیکھتے ہیں۔
محض عوام کا ساتھ کافی نہیں جمہوری طاقتوں کا ساتھ ہی عوام اور جمہوریت  کو تقویت بخش سکتے ہیں۔ آئیں آپ ہمارا وجود تسلیم کریں اور ہم آپ کا۔ کہ اسی سے عوام کا وجود تسلیم ہوگا اور اسی سے پھر عوام کی رائے بھی قابل احترام ٹھہرے گی۔
آئیں اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے کچھ ایسا کر گزریں کہ آنے والی نسلیں مجھے اور آپ کو ہمیشہ اپنا محسن قرار دیں۔  ضد اور ہٹ دھرمی سے میں خود بے پناہ حد تک متاثر ہو چکا ہوں، میری خواہش ہے کہ آپ نہ ہوں۔ مجھے اور آپ کو دامن وسیع کرتے ہوئے عوام کے نام پر کچھ بنیادی نکات پر اتفاق رائے کرنا ہو گا۔  
فقط۔
آپ کا خیر اندیش  
میاں محمد نواز شریف  

شیئر: