آپ کسی بھی محفل میں جائیے، موقع خوشی کا ہو یا غم کا، دو سوال آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے: یعنی عدالت عظمیٰ کی واضح رولنگ اور الیکشن کمیشن کی بارہا یقین دہانیوں کے باوجود یہ کہ الیکشن ہو رہے ہیں یا نہیں؟ اور دوسرا یہ کہ عمران خان کا کیا بنے گا؟
تیسرا سوال نسبتاً سیاسی اور صحافتی پلیٹ فارم پر اٹھایا جاتا ہے اور وہ ہے لیول پلیئنگ فیلڈ کا۔ چوتھا سوال قدرے فرینک ہونے کے بعد مہمان یا میزبان ایسی محافل میں کچھ یوں پوچھتے ہیں: اندر دی کی خبر اے؟ پانچواں سوال صحافتی حلقوں میں نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے ہوتا ہے کہ کون کیا کردار نبھانے کو ہے؟
مزید پڑھیں
-
ورلڈ کپ میں ناکامی اور عمران خان کا مشورہ، اجمل جامی کا کالمNode ID: 811641
-
نو مئی کے بعد عمران خان سے ملاقات کا احوال، اجمل جامی کا کالمNode ID: 815296
دستیاب جانکاری میں جب چنگاری نہ رہے تو پھر استعارے کام آتے ہیں۔ باقی ماندہ سوالات پر چرچا عموماً پھر استعاروں کے ذریعے ہی ہوا کرتی ہے۔
مثلاً تازہ وقوعہ ہی دیکھ لیجیے، جیل میں کپتان کی صحافیوں کی غیررسمی ملاقات ہوئی، ان کے بیانات سوشل میڈیا اور میڈیا کی زینت بنے تو پورا منظرنامہ بدل کر رہ گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ کون حق پر ہے کون نہیں، کون سچا ہے کون جھوٹا؟ یہ جزوی سوالات ہیں، بنیادی حرکیات پر توجہ از حد ضروری ہوا چاہتی ہے۔ ابلاغ کے جدید ذرائع کا بروقت اور مناسب ترین استعمال بیانیہ تشکیل دینے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، پھر چاہے بیانیہ حقیقت پر مبنی ہو یا کہانیوں پر، فرق نہیں پڑتا۔
روایتی سیاست اور روایتی سیاست دانوں کی کارکردگی کی نفی کرتا کپتان کا بیانیہ حالیہ دس 15 برسوں میں ہمیشہ بروقت تشکیل پایا، یہی وجہ ہے کہ اس صنف میں موصوف نمایاں رہے۔ ان کے مخالفین اس کے برعکس روایتی ہتھکنڈوں اور روایتی ذرائع پر تکیہ کیے بیٹھے رہے اور اب خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ووٹر اور سپورٹر کے لیے مقبول اور پسندیدہ رہنما کا محض ایک بیان ہی کافی رہتا ہے۔
دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اس کے برعکس کہاں مصروف ہیں؟ ان کا بیانیہ کیا ہے؟ ان کی کمیونیکیشن سٹریٹیجی کیسی ہے؟ انتخابات کے ہنگام یہ ووٹر کے پاس کیا نعرہ لے کر جا رہے ہیں؟ جواب میں اگر مگر اور چونکہ چنانچہ سننے کو ملتا ہے۔ عوام کیا اگر مگر اور چونکہ چنانچے کی بنیاد پر اپنی محبت ایسے رہنماؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہوں گے؟ جواب ہے نہیں!

تو پھر کس بنیاد پر یہ بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی معرکہ سر کرتے ہوئے کپتان کو زِیر کرنے کا عزم رکھتی ہیں؟ اس کا جواب چونکہ براہ راست دستیاب نہیں ہوتا لہٰذا جانکاری کی چنگاری مدھم ہو کر استعاروں پر توجہ مبذول کرواتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی ہوں، مفتاح اسماعیل ہوں، دانیال عزیز یا پھر جاوید ہاشمی، یہ استعارے ہی ہیں۔ ٹکٹ کا پھڈا ہو یا عہدے کا، یہ روایتی جواز ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ کپتان کے دیوانے ہیں، بلکہ یہ درحقیقت بدلتے حالات کا ادراک رکھتے ہیں اور اپنی جماعت کو نئے خطوط پر استوار ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ موروثیت سے عاجز ہیں، دہائیاں ایک سیاسی جماعت کے نام دان دینے کے بعد یہ ان خدمات کا اعتراف اور جائز مقام چاہتے ہیں۔ ٹکٹ ایسے میں ثانوی مدعا بن کر رہ جاتا ہے۔
یقین نہ آئے تو دوسری جانب بلاول کو دیکھ لیجیے، 70 فیصد نوجوانوں کی نمائندگی کرنے کے خواہاں ہیں، جبھی تو بزرگوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دیتے ہوئے وہ نوجوانوں کو متاثر کرنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کے والد بھی بزرگ ہیں اور تواتر اپنے چہیتے کا سیاسی مستقبل اور سیاسی مقام طے کرنے کی جدوجہد میں کھوئے رہتے ہیں۔
بلاول کی سوچ اور پکار اپنی جگہ لیکن ان کی جماعت میں روایتی پن اور ان کے بزرگوار کی سرپرستی ان کے بیانیے کی مقبولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہے گی۔
