عدالتی امور میں حکومت کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی: سپریم کورٹ
عدالتی امور میں حکومت کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی: سپریم کورٹ
جمعرات 28 مارچ 2024 11:30
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
چیف جسٹس کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی شریک ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
چیف جسٹس پاکستان کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کی شام کو جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ ’ججوں کے معاملات اور انتظامی امور میں ایگزیگٹو (حکومت) کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، اور کسی بھی طرح کے حالات میں عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘
’چیف جسٹس اور ان کے بعد سینیئر ترین جج (جسٹس منصور علی شاہ) نے واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی ستون ہے جو قانون کی بالادستی اور مضبوط جمہوریت کو یقینی بناتا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت ایک انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی جس کی سربراہی کے اچھی ساکھ حامل ایک ریٹائرڈ جج کریں گے۔
اس موقعے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مذکورہ کمیشن کی تشکیل کی مظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔
وزیراعظم نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر موسٹ جج جسٹس منصور علی شاہ کے خیالات کی مکمل تائید کرتے ہوئے مزید یقین دلایا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات اور اس بارے میں متعلقہ محکموں کو ہدایات بھی جاری کریں گے۔
’وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ فیض آباد دھرنا کیس پر لیے گئے سوموٹو کے فیصلے کے پیراگراف 53 کے تحت قانون سازی کے عمل کا آغاز بھی کریں گے۔‘
اعلامیے کے مطابق ’اس کے بعد گذشتہ اجلاس کے تسلسل میں چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ میٹنگ بلائی اور ججز کو وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے متعلق بریفنگ دی۔‘
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’جب 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کا خط چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ملا تو انہوں نے اسی دن شام افطار کے بعد اپنے گھر میں ہی ان تمام ججوں کو بلا لیا اور اڑھائی گھنٹے تک فرداً فرداً ان کے تحفظات سنے۔‘
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے درمیان ملاقات کے بعد سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل فُل کورٹ اجلاس دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔
شہباز شریف جمعرات کی دوپہر دو بج کر پانچ منٹ پر سپریم کورٹ پہنچے تھے۔
چیف جسٹس کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی شریک رہے۔
اس ملاقات میں ججز کی جانب سے لکھے گئے خط اور ان میں لگائے گئے الزامات، سکیورٹی اداروں کے کردار اور الزامات کی تحقیقات کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔
ابتدائی طور پر یہ تاثر دیا گیا تھا کہ یہ ملاقات اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے تناظر میں ہو رہی ہے لیکن اب حکومتی ذرائع کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ملاقات کا مقصد سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں ٹیکس معاملات سے متعلق زیر التوا مقدمات پر گفتگو کرنا تھا۔
تاہم بعض حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ہونے والی ملاقات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس ملاقات کی خبر سامنے آنے سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ختم ہو گیا تھا۔ اجلاس میں کیا کچھ طے پایا اس حوالے سے اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔
اجلاس دو گھنٹے جاری رہا اور امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا جائے گا اور ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کے حوالے سے سپریم کورٹ بالخصوص چیف جسٹس کا ردعمل سامنے آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس اجلاس سے قبل بھی چیف جسٹس آف پاکستان سے وزیر قانون اعظم نظیر تارڑ اور اٹارنی جنرل عثمان منظور نے ملاقات کی تھی جس میں اسلام اباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھا گیا خط کا جائزہ لیا گیا تھا۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس محسن اختر کیانی سمیت چھ ججز نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور دباؤ ڈال کر اثرانداز ہونے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
خط میں ججز نے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے 2018 میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرانے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ماضی قریب میں عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی مداخلت، ججوں کے اہل خانہ، دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے ان پر اثر انداز ہونے کی کوششوں اور کچھ غیرمعمولی اقدامات کی نشان دہی کی ہے۔
ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنے خط میں لکھا کہ ’ٹیریان وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بنچ میں شامل ججز کا اختلاف سامنے آیا۔ پریذائیڈنگ جج نے اپنی رائے کا ڈرافٹ بھجوایا جس سے دیگر دو ججز نے اختلاف کیا۔‘
الزام عائد کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا جس کے بعد ایک جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوکر ہسپتال داخل ہوئے۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔ ججز نے اپنے خط میں الزام عائد کیا ہے کہ مئی 2023ء میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا۔ انہیں برادر حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور وڈیو بیان ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا، ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے استعفی دینے پر دباؤ ڈالا گیا۔‘
عدالت عالیہ کے چھ ججز نے خط میں بتایا کہ 10 مئی 2023 کو چیف جسٹس کو مراسلہ لکھا کہ آئی ایس آئی آپریٹوز کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
ججز کا کہنا ہے کہ ایک جج سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے تو ان کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے۔ کیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجود تھا جو آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ پہنچا رہا تھا، جج اور اس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیو اور یو ایس بی دریافت ہوئیں۔
اس خط کے حوالے سے سپریم کورٹ بار کونسل کے ساتھ ساتھ مختلف بار کونسل کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بار کونسل نے عدلیہ میں مداخلت کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ججز کی جانب سے خاتمے لکھے گئے واقعات کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔