پنجاب کے واحد پشتون ایم پی اے جو اپنا پہلے دن کا تجربہ بھولنا چاہتے ہیں
پنجاب کے واحد پشتون ایم پی اے جو اپنا پہلے دن کا تجربہ بھولنا چاہتے ہیں
اتوار 31 مارچ 2024 6:09
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
پنجاب اسمبلی میں اِس بار کئی نئے چہرے منتخب ہو کر آئے ہیں جن میں اِس وقت واحد پشتون رکن اسمبلی میجر (ر) اقبال خٹک بھی شامل ہیں۔
میجر (ر) اقبال خٹک کا تعلق میانوالی سے ہے اور وہ حالیہ انتخابات میں پی پی 85 سے منتخب ہوئے ہیں۔ اسمبلی کے پہلے سیشن میں وہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے اسمبلی کے احاطے میں داخل ہوئے تو چاروں طرف سے صحافیوں اور سکیورٹی عملے نے انہیں گھیر لیا۔ ان سے مختلف سوالات کیے گئے جس کے بعد وہ گاڑی پارک کر کے اسمبلی ہال کی جانب روانہ ہوئے۔ وہ درست لہجے میں اُردو بول رہے تھے اس لیے اُن پر پشتون ہونے کا گمان نہیں ہوا۔ اس وقت تک کوئی واقف نہیں تھا کہ وہ پشتون ہیں۔
چوتھے سیشن کے پہلے روز جب سپیکر نے اُنہیں بولنے کی دعوت دی تو اُن کا نام ’اقبال خٹک‘ میڈیا گیلری میں موجود صحافیوں کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہو گیا۔
اقبال خٹک جب مائیک پر کچھ بولنے لگے تو دور بیٹھے صہیب احمد برتھ نے اپوزیشن کی جانب کوئی جملہ کسا۔ اقبال خٹک حیران ہوئے اور غصے میں ان کی جانب کافی دیر تک دیکھتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے تقریر شروع کی۔
پہلے روز کے اختتام پر جب وہ اسمبلی ہال سے باہر آئے تو اُردو نیوز نے اُن سے ’خٹک‘ نام اور پنجاب اسمبلی میں آنے کے حوالے سے دریافت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اِس وقت پنجاب اسمبلی میں واحد پشتون رکن اسمبلی ہیں۔ یہ بات وہ بڑے فخریہ انداز میں بتا رہے تھے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف پشتونوں کی نمائندگی کرنے نہیں آئے بلکہ وہ اپنے حلقے کی بھرپور نمائندگی کے خواہاں ہیں۔
اُنہوں نے تفصیلی گفتگو کے لیے وقت کی قلت کی طرف اشارہ کیا۔ جب تفصیلی گفتگو کے لیے ان کے ہاں جانا ہوا تو وہ اس بات پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے کہ پنجاب اسمبلی میں ایک پشتون رکن اسمبلی اپنی آواز پورے پنجاب کے نمائندوں کے سامنے آٹھانے کے قابل ہوا ہے۔
میجر (ر) اقبال خٹک کے بقول انہیں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے حلقہ پی پی 85 سے اپنی جماعت کی جانب سے نامزد کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میرے حلقے کے لوگوں نے بلا تفریق مجھے تاریخی مارجن سے جیت دلوائی اور ریاستی دباؤ کے باوجود عمران خان کی کال پر لبیک کہا۔ میری یہ جیت میں عمران خان اور اپنے لوگوں کے نام کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پشتون ہونے کے ناطے انہیں اِس بات پر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے سے نمائندہ منتخب ہوئے ہیں۔
’ہم چونکہ اپوزیشن میں ہیں اور اب بھی حکومت سمیت ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں لیکن ہماری کوشش ہو گی کہ اس سب کے باوجود قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ڈیلیور کر سکیں۔‘
میجر (ر) اقبال خٹک نے پنجاب اسمبلی میں پہلے روز داخلے کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات تھی لیکن اُس دن شاید میں واحد بندہ تھا جس کو روکا گیا اور بتایا گیا کہ ڈرائیور کو اتار دیں لیکن جونہی میں اسمبلی میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ ڈرائیور کو تو اندر لانا ہے، اس سے مجھے تھوڑا دکھ بھی ہوا۔‘
ان کے مطابق ’ان کے ساتھ یہ رویہ اس لیے روا رکھا گیا کہ ان کی گاڑی پر عمران خان کی تصویر تھی۔ اس کے باوجود میں اپنے اس تجربے کو بھول کر اپنی خوشی عمران خان اور اپنے لوگوں کے ساتھ منانا چاہتا ہوں۔‘
اسمبلی میں دیگر ارکان کے ساتھ وہ وقفے کے دوران مل رہے ہوتے ہیں۔ اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ باہر جو بھی ہوا وہ تو ایک تلخ تجربہ تھا لیکن اسمبلی فلور پر ان کے ساتھ مناسب رویہ رکھا جاتا ہے۔
’ارکان اسمبلی چاہے ن لیگ کے ہوں یا پھر پیپلز پارٹی کے، سب میرے ساتھ خوشی سے ملتے ہیں اور محبت دیتے ہیں۔ مجھے اب تک ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میرے ساتھ اسمبلی میں پشتون ہونے کی وجہ سے کوئی تعصب برتا جا رہا ہے۔‘
اس موقع پر انہوں نے نو مئی واقعات کی پاداش میں گرفتار ملزمان کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا اور بتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ماضی کو بھول کر مستقبل پر کام کرنا چاہیے۔
’یہ میری ذاتی رائے ہے کہ اس ایوان میں آنے کا مقصد ہے کہ ہم اپنے لوگوں کے لیے کچھ کر سکیں۔ میری یہ ایک مخلصانہ خواہش ہے کہ ہم ماضی کو بھول کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے مزید گریز کریں اور لوگوں کا سوچیں۔‘
رکن پنجاب اسمبلی نے اسمبلی فلور پر نعرے بازی سے گریز اور قانون سازی کرنے پر زور دیا۔
اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ جس پوزیشن پر وہ اور دیگر ارکان اسمبلی بیٹھے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ قانون سازی پر توجہ دی جائے۔
ان کے مطابق ’میں جو چیزیں محسوس کر رہا ہوں وہ مکمل متضاد ہیں۔ مثلاً جب میں پولیس ریفارمز کی بات کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ملک کے کچھ وڈیرے یا قانون ساز یہ چاہتے ہی نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر تمام محکموں کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس سے اچھا کوئی اقدام نہیں ہو گا۔
میجر (ر) اقبال خٹک نے اپنے لوگوں سے محبت کا اظہار نہایت کھلے دل سے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہوں۔ میرے حلقے میں چاہے پشتون ہوں یا پھر سرائیکی، ان کی طرف سے مجھے ہمیشہ محبت ملی ہے۔‘
انہوں نے حکومت وقت اور دیگر اداروں سے درخواست کی کہ نو مئی واقعات کے جرم میں ان تمام گرفتار ملزمان کو رہا کیا جائے جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تاکہ وہ اپنوں کے ساتھ عید منا سکیں۔
اقبال خٹک کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کسی ایک طبقے کے لیے ہر گز آواز نہیں اٹھائیں گے بلکہ وہ ان تمام طبقات کے لیے آواز اٹھانے کو ترجیح دیں گے جن کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
ان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’میں کسی ایک طبقے (پشتونوں) کے لیے آواز اٹھانے کا حامی نہیں ہوں لیکن اگر کسی ایک طبقے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو میری خدمات ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہیں۔ لسانیت کو ہوا دینے والے اس ملک کے لیے اچھا چاہنے کے خواہش مند نہیں ہو سکتے۔‘
ان کی رائے ہے کہ لسانیت کی بنیاد پر قائم معاشروں میں ہر گروہ اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے، اس لیے تمام اراکین کو سب کے لیے یکساں آواز اٹھانی چاہیے۔