بشریٰ بی بی پر سختی کا مقصد عمران خان پر دباؤ ڈالنا ہے، مشال یوسفزئی
نظام آلودہ تھا اب تعفن زدہ ہوچکا: اجمل جامی کا کالم
تحریک انصاف اتحاد کے لیے بات کرنا چاہے تو پی پی پی سوچے گی: ڈپٹی سپیکر
اپوزیشن جماعتوں کا ملک میں فی الفور نئے شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کا مطالبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کو دھمکی آمیز خط موصول
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت سپریم کورٹ کے پانچ دیگر ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق مبینہ خطوط تحریک ناموس پاکستان نامی تنظیم کی طرف سے بھیجے گئے ہیں
خطوط میں ناانصافی،بدامنی اور کرپشن ختم نہ کرنے پر ججز کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔
اس سے قبل اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی شہزاد بخاری نے سپریم کورٹ کے ججوں کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کا انکشاف کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو موصول دھمکی آمیز خطوط کے معاملے پر ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری عدالت میں پیش ہوئے۔
ہائی کورٹ میں اپنے بیان میں ڈی آئی جی نے انکشاف کیا کہ سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی اس طرح کے خطوط ملے ہیں۔
شہزاد بخاری نے بتایا کہ خط میں ملنے والا کیمکل معائنے کے لیے بھجوا دیے ہیں۔ ’تین سے چار دن میں رپورٹ آ جائے گی۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ کہاں سے خطوط پوسٹ کیے گئے تھے؟ ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ خط پر موجود سٹیمپ نہیں پڑھی جا رہی ہے۔
چھ ججز کے خط پر سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے عدالتی امور میں مداخلت، اہل خانہ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے اور مختلف طریقوں سے اثرانداز ہونے کے ایجنسیوں پر الزامات پر مبنی خط کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں تمام ججوں پر مشتمل سات رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کسی کے پریشر میں نہیں آئیں گے، چیف جسٹس
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں اپنے فیصلوں میں دباؤ نہیں لینا چاہیے، میں تو کوئی دباؤ نہیں لیتا۔‘
چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ عجیب بات ہے کہ وکلاء مطالبہ کرتے ہیں کہ ازخود نوٹس لیں، عدالتوں کو مچھلی منڈی نہیں بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر بالکل سمجھوتہ نہیں کریں گے،عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلز کے نمائندگان سے بھی اس معاملے پر ملاقات کی ہے اور بار کونسلز کے وکلا کس جماعت سے ہیں اس سے ہمیں لینا دینا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر ذاتی حملوں کے بعد جسٹس تصدق جیلانی نے معذرت کر لی، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انکوائری کمیشن سے متلعق بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم سے ہم نے ملاقات ایگزیکٹو کے معاملے پر کی تھی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں، سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا نام بھی انکوائری کمیشن کے لیے سامنے آیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے ملاقات کی اور کمیشن کی تشکیل کو بتایا کس کے بعد سابق چیف جسٹستصدق نے کہا کہ ٹی او آرز کے بعد جواب دوں گا۔
اس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انکوائری کمیشن بنا تو تصدق جیلانی صاحب پر ذاتی حملے کیے گئے، وہ پیسوں کے لیے کمیشن کی سربراہی نہیں کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو باتیں ہوئیں مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، تصدق جیلانی پر بے جا تنقید سن کر مجھے شرم آئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ تصدق جیلانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر کہا گیا، اس کے بعد انہوں نے معذرت کر لی۔
’تصدق جیلانی پر ذاتی حملے بھی کیے گئے اور سوشل میڈیا سے پریشر ڈالا گیا۔ جس اندازمیں دباؤ ڈالا گیا مجھے ان کا نام تجویز کر کے شرمندگی ہو رہی تھی۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے، چیف جسٹس
خط کے معاملے پر حکومت کی جانب سے بنائے گئے انکوائری کمیشن پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ کمیشن نہیں بنا سکتی، وفاقی حکومت کے پاس انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ کہنا کہ سپریم کورٹ نے اپنا اختیار حکومت کو دے دیا، یہ بات غلط ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات کسی اور کو کیسے دیے جا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے آئین کو چھوڑ دیا ہے اور آئین کے تحت سپریم کورٹ کمیشن نہیں بنا سکتی، یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے، ہوسکتا ہے ہمارا ادارہ پہلے حدود سے نکلا ہو مگر اب ایسا نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے مشاوت کے بعد سماعت کے لیے فل کورٹ بنا دیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ خط کے معاملے پر عدالتی کارروائی کو کیسے آگے لے کر چلنا ہے، اس پر مشاورت کر لیں اور سماعت کے لیے فل کورٹ بھی تشکیل دی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ ’ہم حکم دیتے ہیں کہ عدلیہ کے کام میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔‘
لارجر بینچ کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ تمام ججز دوسری رجسٹریوں میں سماعت کر رہے ہیں، باقی ججز عید کے بعد واپس آ جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی اسلام آباد واپسی 29 اپریل کو ہوگی، اس کے بعد سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔ تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت 30 اپریل کو ہوگی اس حوالے سے جائزہ لے کر طے کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔