افغانوں کو پاسپورٹ جاری کرنے کا معاملہ، حکام معاملے کی تہہ تک کیسے پہنچے؟
افغانوں کو پاسپورٹ جاری کرنے کا معاملہ، حکام معاملے کی تہہ تک کیسے پہنچے؟
جمعرات 20 مارچ 2025 7:01
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے مطابق افغان شہریوں کو پاسپورٹ جاری کرنا قومی سکیورٹی کا مسئلہ تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں جعلسازی کے ذریعے افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کے معاملے کو قومی سلامتی کے سنگین مسئلے کے طور پر لیا گیا۔
جس کے نتیجے ہونے والی تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس نیٹ ورک میں کئی سرکاری افسران بھی ملوث تھے، جن میں کئی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز اور فوجداری مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا، جب ڈی جی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کو سعودی عرب میں مقیم ان کے ایک دوست نے اطلاع دی کہ بڑی تعداد میں افغان شہری پاکستانی پاسپورٹ پر سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔
اس حوالے سے ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفیٰ جمال قاضی نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’جب میں نے چارج سنبھالا تو اس دن مجھے سعودی عرب میں مقیم ایک دوست، جو پہلے پاکستان میں سعودی قونصل جنرل رہ چکے تھے، کا پیغام ملا۔ انھیں وہاں معلوم ہوا کہ مجھے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) مقرر کیا گیا ہے۔ چونکہ میں کراچی میں ڈی سی ساؤتھ تھا اور وہ وہاں قونصل جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے، وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے۔ انھوں نے مبارکباد دی اور کہا کہ ایک تحفہ بھیج رہے ہیں۔ میں نے سوچا شاید کھجوریں یا زمزم ہوگا، مگر چند دن بعد ڈی ایچ ایل کے ذریعے کچھ ڈبے موصول ہوئے۔ جب میں نے انھیں کھولا تو ان میں تقریباً 300 پاکستانی پاسپورٹ تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب دوست سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ وہ پاکستانی پاسپورٹ ہیں جو افغان شہریوں کو جاری کیے گئے تھے، اور مزید بوریوں میں بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے اپنے ادارے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے والے ڈی جی کے دور میں سعودی عرب سے ایک سرکاری خط آ چکا تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ اس پر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جواب ملا کہ اس میں بڑا خطرہ تھا، پاسپورٹ کی بدنامی ہو سکتی تھی۔‘
مصطفیٰ جمال قاضی کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں اداروں نے بھرپور تعاون کیا۔ (فوٹو: ایکس)
ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کا کہنا ہے کہ ’میں نے کہا کہ اگر غلط طریقے سے پاسپورٹ بنے ہیں اور ہم اصلاحی اقدامات کر رہے ہیں، تو ہمیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم یہ معاملہ خود نہ کھولیں تو کل کوئی اور اسے اٹھا کر ہمیں مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اصل مجرموں کو ہم ہی پکڑ لیں۔ چنانچہ میں نے اس مسئلے پر باقاعدہ خط لکھا اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا۔‘
انھوں نے انکشاف کیا کہ ’خط کے بعد مجھ پر دباؤ آنا شروع ہوا۔ ایک صاحب میرے دفتر بھی آئے اور مشورہ دیا کہ میں اس معاملے میں نہ پڑوں۔ میں نے دو ٹوک جواب دیا کہ یہ میرا کام ہے، اور میں ہر قسم کا خطر مول لینے کے لیے تیار ہوں۔ میری نیت صاف ہے، میں نے یہ مسئلہ پیدا نہیں کیا، لیکن اگر میرے خلاف بھی کچھ آتا ہے تو میں اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘
بعد ازاں، اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کی سربراہی ڈی جی پاسپورٹ کو سونپی گئی تاہم انھوں نے انکار کر دیا۔ ’چونکہ یہ براہ راست ہمارا ہی معاملہ ہے، لہٰذا میرے لیے تحقیقات کرنا مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہوگا۔ انھوں نے تجویز دی کہ اس کی تفتیش کسی تیسرے فریق سے کروائی جائے۔‘
پہلے ایف آئی اے کا نام آیا، لیکن مصطفیٰ جمال قاضی نے اس کی بھی مخالفت کی، کیونکہ پاسپورٹ کا اجرا اور امیگریشن کا عمل دونوں ایف آئی اے کے تحت آتے ہیں۔
ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی تجویز تھی کہ انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) اس انکوائری کی نگرانی کرے اور دیگر اداروں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ تمام پاسپورٹ کی فارنزک جانچ ہو سکے اور کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔
کمیٹی کی سربراہی اعجاز رسول ملک جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے کی۔ کمیٹی میں تمام تحقیقاتی اداروں کے گریڈ 20 کے افسران شامل ہیں۔
ایف آئی اے نے اسلام آباد میں کی گئی کارروائی میں مزید 16 افراد کو گرفتار کیا۔ (فائل فوٹو)
کمیٹی میں نادرا، ایف بی آر، آئی ایس آئی، ایف آئی اے، وزارت داخلہ اور ڈائریکٹرہیڈ کوارٹرکا گریڈ 20 کا افسر شامل تھے۔
تحقیقات کے مطابق، اس نیٹ ورک کا سب سے بڑا مرکز خیبرپختونخوا میں طورخم کے مقام پر تھا، جہاں روزانہ سینکڑوں افغان شہریوں کو جعلی دستاویزات پر پاکستانی پاسپورٹ جاری کیے جاتے تھے۔ ایجنٹس فی کس آٹھ سے دس لاکھ روپے وصول کرتے، اور اس رقم کا ایک حصہ اعلٰی افسران تک بھی پہنچایا جاتا تھا۔
جب معاملے کی مزید کھوج لگائی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ جعلسازی تین مختلف طریقوں سے کی جا رہی تھی۔ کچھ افغان شہریوں کو پاکستانی نادرا کے اصل ڈیٹا پر جعلی شناختی کارڈز بنا کر پاسپورٹ جاری کیے گئے، کچھ کیسز میں پاکستانی شہریوں کے ریکارڈ میں رد و بدل کر کے کسی اور کی تصویر اور تفصیلات لگا دی گئی تھیں، جبکہ کئی ایسے پاسپورٹس بھی تھے جن کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں تھا اور یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کہاں سے جاری ہوئے۔
معاملے کی گہرائی میں جانے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑے پیمانے پر چھاپے مارے اور جعلی پاسپورٹ جاری کرنے میں ملوث تین اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا، جن میں اس نیٹ ورک کا سرغنہ، اسلام آباد کے پاسپورٹ دفتر کا ایک حاضر سروس افسر، اور ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر شامل تھا۔ مزید تحقیقات کے دوران نادرا اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے سات افسران کو بھی گرفتار کیا گیا، جن میں تین اسسٹنٹ ڈائریکٹر شامل تھے۔ اس کے علاوہ، چار ایجنٹس جو افغان شہریوں کو جعلی دستاویزات فراہم کرتے تھے اور پانچ افغان شہریوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔
حکومت پاکستان نے اس معاملے کو قومی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے، کیونکہ یہ جعلسازی صرف غیرقانونی شہریت کے معاملات تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس کے ذریعے پاکستان کے پاسپورٹ کا غلط استعمال بھی ہو رہا تھا، جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔
ایف آئی اے نے اسلام آباد میں کی گئی کارروائی میں مزید 16 افراد کو گرفتار کیا، جس میں چار ایجنٹس اور پانچ افغان شہری بھی شامل تھے۔
تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ نیٹ ورک کا سب سے بڑا مرکز طورخم کے مقام پر تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے مطابق ’مجھ سے پوچھا گیا کہ اس کیس میں شکایت کنندہ کون ہوگا؟ میں نے واضح طور پر کہا کہ شکایت کنندہ ڈائریکٹوریٹ آف پاسپورٹس ہی ہوگا، نہ کہ ایف آئی اے، کیونکہ نقصان ہمارا ہوا تھا اور ہم ہی اس کے اصل مالک ہیں۔ اس فیصلے سے فائدہ یہ ہوا کہ کوئی انگلی ہم پر نہیں اٹھی، اور جو عناصر اس جعلسازی میں ملوث تھے، انھیں ہم نے خود گرفتار کروایا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ پہلی بار ہوا کہ اس معاملے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی گئی۔ ہر جگہ کچھ نہ کچھ کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں، اور اگر ہمارے اپنے محکمے میں کوئی ملوث تھا، تو ہمیں خود اس کی شناخت کرنی تھی، ورنہ یہ معاملہ بعد میں مزید سنگین ہو سکتا تھا۔ یہ ایک قومی سکیورٹی کا مسئلہ تھا، جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تحقیقات میں اداروں نے میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا، اور ہم ایک منطقی انجام تک پہنچے۔ بعد میں کہا گیا کہ ہمارے محکمے کا سائبر آڈٹ بھی ہوگا، جس پر میں نے فوراً رضامندی ظاہر کی۔ دباؤ اور رکاوٹیں ہمیشہ آتی ہیں، لیکن اگر قیادت واضح موقف اختیار کرے اور صحیح سمت میں کھڑی ہو تو نیچے والے بھی مسائل پیدا نہیں کرتے۔‘
خیال رہے کہ گرفتار افسران میں سے بیشتر نے اپنے خلاف ہونے والی کارروائی پر عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ اینڈ امیگریشن اس سکینڈل میں ملوث افسران اور اہلکاروں کے نام پبلک کرنے سے گریزاں ہے۔