جیمز کیمرون کی بلاک بسٹر فلموں کے پیچھے بچپن کی ڈرائنگز تھیں
جیمز کیمرون کی بلاک بسٹر فلموں کے پیچھے بچپن کی ڈرائنگز تھیں
جمعرات 4 اپریل 2024 10:38
جمیز کیمرون نے دا ٹرمینیٹر، ٹائٹینک، اور ایلینز جیسی بلاک بسٹرز بنائیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ہالی وڈ نے کچھ ایسی تھرلر فلمیں پروڈیوس کیں جو اتنے برسوں گزر جانے کے بعد بھی بار بار دیکھی جاتی ہیں۔
ان فلموں میں ڈائریکٹر جیمز کیمرون کی دا ٹرمینیٹر، ٹائٹینک، اور ایلینز بھی شامل ہیں جو نہ صرف کئی ایوارڈز جیت چکی ہیں بلکہ اپنی کہانی اور بہترین سپیشل ایفیکٹس کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔
ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ بچپن سے ہی ڈرائنگ کیا کرتے تھے اور اس ہنر کے ذریعے وہ اپنی کہانی خود تخلیق کرتے تھے، جس کو وہ اپنے انداز میں بیان کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے اپنے بچپن کا واقعہ دہراتے ہوئے بتایا کہ آٹھ یا نو سال کی عمر میں وہ ’مسٹیریس لینڈ‘ فلم دیکھنے گئے اور اس میں دکھائی گئی عجیب و غریب مخلوق دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔
’لیکن جب میں گھر واپس گیا تو میں نے اپنی ڈرائنگ میں فلم کے کرداروں کو نہیں بنایا بلکہ مختلف جانوروں کے ساتھ اپنی نئی کہانی تخلیق کی۔‘
جیمز کیمرون نے بتایا کہ جب وہ ہائی سکول میں گئے تو انہوں نے ڈرائنگ کے ہنر کو مزید سنجیدگی سے لیا اور پھر کامیکس بک شائع کی لہٰذا فلموں کی دنیا میں قدم رکھنا انتہائی آسان ہوتا گیا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ بچپن میں کی گئی ڈرائنگز نے کس طرح سے ان کی فلموں کو اثرانداز کیا تو جیمز کیمرون نے 2009 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دا ایواٹار‘ کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس کی پہلی ڈرائنگ انہوں نے پچاس سال پہلے کی تھی جب وہ 19 سال کے تھے۔
فلم دا ٹرمینیٹر کے حوالے سے جیمز کیمرون کا کہنا تھا کہ اس کا عکس انہیں خواب میں دکھائی دیا تھا۔
’میں بیمار تھا، مجھے تیز بخار تھا اور اس دوران مجھے خواب آیا۔ میں نے دیکھا ایک ڈھانچہ بھڑکتی ہوئی آگ میں سے نکل رہا ہے اور میں نے فوراً اسے کاغذ پر بنا دیا۔ اور پھر میں نے سوچا کہ یہ آگ میں کیسے داخل ہوا۔ یہ اس سے پہلے کیسا لگتا تھا اور مجھے فوراً خیال آیا کہ وہ آگ میں داخل ہونے سے پہلے ایک انسان تھا۔‘
جیمز کیمرون نے بتایا کہ بچپن میں بھی انہیں ایسے ایکشن بھرے خواب آتے تھے جن میں وہ دیکھتے کہ وہ تیز رفتار سے پانی کی ٹنل میں سے گزر رہے ہیں اور پھر گہرائی میں جا گرتے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک اور خواب کے بارے میں بتایا جو ان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔ خواب میں جمیز کیمرون دیکھتے ہیں کہ وہ ایک کمرے میں بند ہیں اور اس کی دیواریں بڑی بڑی بھڑوں سے بھری ہوئی ہیں جو انہیں مار بھی سکتی ہیں۔
بعد میں یہی ڈراؤنا خواب ایلینز فلم کا ایک سین بن گیا۔
جیمز کیمرون کا کہنا ہے کہ کاغذ اور پینسل کا استعمال کرتے ہوئے ڈرائنگ کرنا اب پرانے وقتوں کی بات ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سوشل میڈیا سے دور باہر جا کر نیچر میں وقت گزارا کریں، اپنے ساتھ وقت گزاریں اور اپنے دماغ کو کچھ دیر خاموش ہونے دیں۔
’لوگوں میں تخلیقی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر آپ سوشل میڈیا پر مسلسل دوسروں کی تخلیق کی ہوئی چیزیں، فلمیں، گیمز دیکھ رہے ہیں تو اس سے آپ کی اپنی تخلیقی صلاحیت آگے بڑھنے سے رک جاتی ہے۔‘