سیاسی میدان میں پہلا قدم، پی ٹی آئی کی زرناب شیر کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑا؟
سیاسی میدان میں پہلا قدم، پی ٹی آئی کی زرناب شیر کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑا؟
جمعرات 11 اپریل 2024 9:48
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
رکن صوبائی اسمبلی پنجاب زرناب شیر کا یہ پہلا الیکشن تھا اور وہ گھریلو ماحول سے اٹھ کر سیاسی میدان میں آئی تھیں۔ ان کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ غیر متوقع تھا لیکن حالات نے انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔
ان کے شوہر طارق محمود ساہی اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ تھے اور سابق رکن صوبائی اسمبلی بھی رہ چکے تھے لیکن ان انتخابات میں ان کے لیے سیاسی ماحول سازگار نہیں تھا۔
جب انتخابات کا موقع آیا تو طارق محمود ساہی نے تحریک انصاف کی جانب سے اپنے بھائی، بھتیجے اور اہلیہ زرناب شیر کے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے۔
لیکن طارق محمود ساہی سمیت ان کے بھائی اور بھتیجے کے کاغذات مسترد ہوگئے جبکہ ان کی اہلیہ زرناب شیر کے کاغذات منظور ہوگئے۔
ان کی اہلیہ اس سے قبل کبھی سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہیں رہیں لیکن ان کے بقول انہیں اپنے شوہر کے دفاع میں سیاست میں قدم رکھنا پڑا۔
ان کے شوہر نو مئی کے واقعات کی پاداش میں روپوش بھی رہے اور ان پر مقدمات بھی بنائے گئے لیکن زرناب شیر نے باقاعدہ الیکشن میں حصہ لیا اور حلقہ پی پی 40 منڈی بہاؤالدین سے مسلم لیگ ن کی حمیدہ وحید الدین کو شکست دینے میں کامیاب ہوئیں۔
پاکستان بھر میں یہ حلقہ ان چند حلقوں میں شامل تھا جہاں خواتین کا آپس میں سخت مقابلہ تھا۔
زرناب شیر کے مقابلے میں مسلم لیگ کی حمیدہ وحید الدین تھیں جو ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں اور علاقے کی سیاست میں بھی سرگرم ہیں۔
زرناب شیر ایک گھریلو خاتون ہیں، ان کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ نو مئی کے بعد ان کا پورا خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر زیرزمین چلا گیا۔
اُردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں زرناب شیر کا کہنا تھا کہ ان کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ مشکل تھا۔
’میں مکمل طور پر گھریلو خاتون تھی اور میں اس ماحول سے واقف نہیں تھی لیکن مجھے اپنے شوہر اور پارٹی کی خاطر یہاں آنا پڑا۔‘
انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ان کو اندازہ ہوا کہ ملک بدترین صورتحال سے دوچار ہے.
’میرا سیاست سے کسی حد تک تعلق اپنے شوہر کی وجہ سے تھا لیکن اب جب میں خود آئی تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارا ملک کس قدر بد ترین حالت میں ہے۔‘
’اس نظام کی درستی اس وقت عمران خان کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔‘
پنجاب اسمبلی میں اپنے پہلے دن سے متعلق زرناب شیر نے بتایا کہ انہیں پہلے دن یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ اسمبلی میں حقیقت میں منتخب نمائندے نہیں آئے۔
’پہلے دن میں نے دیکھا اور افسوس کیا کہ کیسے مینڈیٹ چور اسمبلی میں آگئے ہیں۔ جن کا حق تھا وہ اسمبلی نہیں آسکے اور فارم 45 سے فارم 47 تک کے سفر میں انہوں نے چوری کی۔‘
ان کا شکوہ ہے کہ اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کو میں مناسب موقع نہیں دیا جاتا۔ گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران حکومتی اراکین نے عمران خان کی تصویر کی وجہ سے کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
زرناب شیر نے اس دن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ’جس طرح انہوں نے عمران خان کی تصویر کی وجہ سے شور مچایا تو یہ ہمیں بولنے تک کا موقع نہیں دیتے۔ انہوں نے خود نواز شریف کی تصویر ٹیبل پر رکھی تھی جبکہ وہ نہ حکومت کا حصہ ہیں اور نہ ہی اس کے اہل ہیں۔
اردو نیوز نے زرناب شیر سے قانون سازی کے عمل میں خواتین کی شمولیت بارے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں اچھا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ان کے بقول ’خواتین چونکہ زیادہ دلچسپی سے اور دھیان دے کر اسمبلی کے اجلاس میں جاتی ہیں تو یہ مردوں کے مقابلے میں بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں۔‘
خواتین نئے سوال کرنے اور نئے بلز لانے میں بھی زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہیں۔ زرناب شیر جب پہلے اجلاس کے لیے اسمبلی آئیں تو وہ اسمبلی رولز آف پروسیجر اور دیگر ضروری کتب اپنے ہاتھ میں تھامے گھر کی جانب رواں تھیں. ان کا یہ انداز ارد گرد موجود صحافیوں کی توجہ حاصل کر گیا کیونکہ اس وقت یہ واحد خاتون رکن اسمبلی تھیں جنہوں نے تمام ضروری کتابیں اٹھا رکھی تھیں۔
اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں 'میں نے وہ کتابیں اس لئے اتنے شوق سے اٹھائی تاکہ میں جان سکوں کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں لیکن درحقیقت یہاں ہماری پوری بات ہی نہیں سنی جاتی۔ ہمارے راستے میں وہ(حکومتی اراکین) ایک بڑی رکاوٹ کی طرح کھڑے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر پا رہے۔‘
اپنے انتخابی مہم اور اس دوران پیش آنے والے واقعات سے متعلق وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بچوں کی تعلیم متاثر ہوگئی تھی۔
’جب ہمارے لیے حالات ناسازگار ہوئے تو ہم سب نے مل کر عمران خان کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے میدان میں رہ کر لڑنے کو ترجیح دی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ہم عام ورکرز تھے لیکن نو مئی واقعات کے بعد ہمیں دہشت گرد قرار دیا گیا۔ ہم اپنے بچوں کو سکولوں سے نکالنے پر مجبور ہوئے اور ہمیں آٹھ فروری تک زیرزمین رہنا پڑا۔ میرے شوہر پر مقدمات درج کروائے گئے۔ دس سے گیارہ مہینوں تک ہم اپنے گھر سے دور رہے اور ہمارے کاروبار بند ہوگئے۔‘
زرناب شیر بتاتی ہیں کہ ان کے لئے گھریلو خاتون ہونے کے باوجود سیاست میں آنا اور پھر مردوں کے شانہ بشانہ سیاسی داؤ پیچ کھیلنا گھر والوں کے اعتماد سے ممکن ہو پایا۔