Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی بہترین خواتین بیوروکریٹس جو تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئیں

بعض مواقع ایسے بھی آئے جہاں ردعمل کی جگہ خواتین بیوروکریٹس کی پیشگی فعالیت نے انہیں نام بخشا۔
پاکستان میں حالیہ سیاسی و مذہبی واقعات سمیت مجموعی انتظامی صورت حال نے ملک بھر میں نوکر شاہی (بیوروکریٹ) کے کردار کو مزید واضح کیا ہے۔ ماضی قریب میں ایسے کئی واقعات اور اقدامات دیکھنے کو ملے جہاں سرکاری ردعمل کے لیے مرکز و محور نوکر شاہی رہے ہیں۔
بعض مواقع ایسے بھی آئے جہاں ردعمل کی جگہ ان کی پیشگی فعالیت نے انہیں نام بخشا۔ اسی پیشگی فعالیت اور بروقت ردعمل کی وجہ سے کئی خواتین نوکر شاہی بھی سامنے آئیں۔
یہ خواتین مختلف شعبہ ہائے کار میں اپنی انتظامی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب بیوروکریسی میں خواتین کے لیے پولیس یا آرمڈ فورسز میں جانا مشکل ہوا کرتا تھا لیکن آج کل تقریباً ہر شعبے میں خواتین اپنا مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں بیوروکریسی میں موجود خواتین میں سے چند نام مرکز نگاہ رہے ہیں ان میں پولیس سروسز سے لے کر انتظامی عہدوں پر موجود خواتین شامل ہیں
قرۃ العین وزیر
جن خواتین بیوروکریٹس نے حالیہ دنون میں سب سے زیادہ نام کمایا ان میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی قرۃ العین وزیر سر فہرست ہیں۔
یہ اپنی نام کی جگہ ’مس وزیر‘ کے اعزازی نام سے مشہور ہیں. قرۃ العین 2017 میں پشاور کینٹ کی مجسٹریٹ تعینات ہوئیں جس کے بعد انہوں نے ریلوے مجسٹریٹ کا اضافی چارج سنبھالا۔
بحیثیت مجسٹریٹ انہوں نے ریلوے ٹریک سے تجاوزات کے خاتمے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنے پر پشاور کے باسیوں نے ان کی بہادری کی بدولت انہیں ’مس وزیر‘ کا اعزازی نام دیا اور افسران بالا نے تعریفی اسناد سے نوازا۔
دسمبر 2019 میں جب کورونا کے وار جاری تھے تو انہیں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس اینڈ پلاننگ نوشہرہ بنا دیا گیا۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران اپنی انتظامی صلاحتیوں کا لوہا کچھ ایسا منوایا کہ ان کا نام ’مس وزیر‘ سوشل میڈیا اور میڈیا کی زینت بنا۔

Caption

نوشہرہ میں سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے دوران ان کی کارکردگی متاثر کن رہی۔ انہوں نے پیشگی اقدامات کرتے ہوئے مقامی افراد کو بروقت گھروں سے نکال کر بڑی تباہی سے بچایا۔ یہ ڈنڈا لیے گھر گھر جاتی اور ان کو حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی ترغیب دیتی۔ یہی وہ موقع تھا جب ان کی ڈنڈا اٹھائے تصاویر وائرل ہوئیں اور انہیں قومی سطح پر سراہا گیا.
اس دوران پشاور ہائی کورٹ میں تجاوزات کے خلاف ایک درخواست آئی۔ سماعت کے دوران عدالت نے تحصیل جہانگیرہ کے تحصیل دار سے استفسار کیا کہ تجاوزات کیوں نہیں ہٹائی جا رہیں؟ اس پر تحصیل دار نے عدالت کو بتایا کہ ’40 فیصد تجاوزات ہٹا دیں گئی ہیں جبکہ مقامی افراد کی مزاحمت کی وجہ سے باقی تجاوزات تاحال نہیں ہٹائی جا سکیں۔‘
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سکندر حیات شاہ نے چیف جسٹس کو تجویز دی کہ ’تجاوزات کے خلاف آپریشن کے لیے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین کو فوکل پرسن مقرر کیا جائے وہ یہ کام کرسکتی ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید نے ریمارکس دیے کہ ’وہ خاتون تو واقعی ون مین آرمی ہیں انہیں فوکل پرسن مقرر کیا جانا چاہیے۔‘ مس وزیر آج کل کل ملتان ترقیاتی ادارے(ایم ڈی اے) میں بطور ڈائریکٹر جنرل خدمات انجام دے رہی ہیں۔

رافعہ حیدر

پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے چالیسویں کامن سے آنے والی ڈسٹرک کمشنر لاہور رافعہ حیدر نے پبلک پالیسی میں جرمنی سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مقابلے کاامتحان پاس کیا۔
رافعہ حیدر کا شمار انتہائی قابل، محنتی اور ایماندار افسران میں ہوتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ سنبھالنے سے قبل وہ سی ای او لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) لاہور تعینات رہیں۔

رافعہ حیدر کا شمار انتہائی قابل، محنتی اور ایماندار افسران میں ہوتا ہے۔ (فوٹو: ایکس)

انہیں سب سے کامیاب سی ای او قرار دیا جاتا ہے۔ جب معاہدے کے مطابق لاہور میں گندگی اٹھانے والی ترک کمپنیاں جانے لگی تو لاہور میں کوڑے کا شدید مسئلہ رافعہ حیدر نے حل کیا تھا۔ عید الاضحیَٰ پر آلائشوں کو ٹھکانے لگانے میں رافعہ حیدر کی سربراہی میں لاہور نے پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔
 وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی بھی رہ چکی ہیں. پنجاب فوڈ اتھارٹی کو لاہور سے نکال کر پنجاب بھر میں پھیلانے کا سہرا رافعہ حیدر کے سر ہے. انہوں نے  پنجاب فوڈ اتھارٹی کے آپریشنل ٹیم کے ملازمین کی تعداد صرف 18 سے بڑھا 2100 تک پہنچائی تھی۔
وہ اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد بھی رہی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران وہ پنجاب کی لیبارٹریز کی ترجمان تھیں۔ رافعہ حیدر نے کورونا وائرس کی وبا میں بطور ڈپٹی سیکرٹری ہیلتھ جدید لیبارٹریوں کا نیٹ ورک بنایا تھا۔ انہوں نے کورونا وائرس ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کی تعداد صفر سے بڑھا 18 تک پہنچائی تھی۔

ممتاز زہرہ بلوچ

وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ اس سے قبل اسی وزارت میں امریکہ کے لیے ڈائریکٹر، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے لیے ڈائریکٹر اور سیکریٹری آف سٹیٹ کے دفتر میں سٹریٹجک پلاننگ کی ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔
اس وقت وہ وزارت خارجہ میں ترجمان اور ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ چین میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ڈپٹی ہیڈ آف مشن کام کر چکی ہیں۔ وہ کوریا میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں جبکہ  واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور قونصلر سیاسی امور بھی تعینات رہی ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ اس وقت وزارت خارجہ میں ترجمان اور ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ (فوٹو: فارن آفس)

انہوں نے یونیورسٹی آف پنجاب سے فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ بعد ازاں انہوں نے امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی کے فلیچر سکول سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں فارن سروس اکیڈمی کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔

ڈاکٹر انوش مسعود چوہدری

نو مئی کے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ اس دوران خاتون پولیس آفیسر سینئیر سپرینڈینٹ آف پولیس(ایس ایس پی)  ڈاکٹر انوش مسعود چوہدری مین سٹریم میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر مسلسل زیر بحث رہی۔
رفتار خواتین رہنماؤں پر جیل میں تشدد اور زیادتی سے لے کر گرفتاریوں کے متعلق غلط معلومات تک ایس ایس پی ڈاکٹر انوش چوہدری ہر حوالے سے متحرک نظر آئیں۔ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مہم بھی چلائی گئی لیکن  وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی۔
 ہمہ وقت پولیس وردی میں ملبوس چار بہن بھائیوں کی لاڈلی چھوٹی بہن ڈاکٹر انوش چوہدری نے 2011 میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے طب کی تعلیم مکمل کرتے ہوئے سونے کا تمغہ حاصل کیا اور بطور میڈیکل ڈاکٹر میو ہسپتال لاہور میں ملازمت کا آغاز کیا۔
بعدازاں انہوں نے مقابلے کا امتحان پاس کرکے پولیس سروس جوائن کی۔
انہوں نے پنجاب پولیس میں بطور اے ایس پی لاہور کام شروع کیا جس کے بعد 11 دسمبر 2014 میں انہیں خیبر پختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد میں صوبے میں پہلی خاتون اے ایس پی کی حیثیت سے باقاعدہ منصب سنبھالا۔
اتفاقاً اسی دن ملالہ یوسفزئی کو اوسلو میں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہوں نے قصور میں ایس پی انویسٹیگیشن ونگ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے جس  کے بعد 20 اکتوبر 2018 میں انہیں ایڈیشنل ایس پی شعبۂ تفتیش ماڈل ٹاؤن لاہور تعینات کیا گیا۔

انوش مسعود کو 26 ستمبر 2019 کو انہیں ایلیٹ پولیس آف پنجاب میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر انتظامیہ تعینات کیا گیا۔

ماڈل ٹاؤن میں جرائم کی روک تھام اور تفتیشی کارروائیوں میں تیزی لانے کی بدولت انہیں خوب شہرت ملی۔
 2019 کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق ایس ایس پی ڈاکٹر انوش نے 2018 میں 74 فیصد چالان پر کارروائی مکمل کر کے عدالت بھیج دیے تھے جس کی بدولت انہیں  لاہور میں سب سے بہترین کرائم فائٹر قرار دیا گیا تھا۔
26 ستمبر 2019 کو انہیں ایلیٹ پولیس آف پنجاب میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر انتظامیہ تعینات کیا گیا۔ اس دوران ان کی تعیناتی اور تقرری کے حوالے سے تنازعات بھی جنم لیتے رہے لیکن بالاآخر مئی 2022 کو انہیں ایس ایس پی آپریشنز لاہور تعینات کر دیا گیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ  لاہور میں اس عہدے پر پہلی بار کسی خاتون آفیسر کو تعینات کیا گیا۔
خاتون پولیس افسر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے خواتین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں ایسے کیسز میں زیادہ کامیابیاں ملیں جس میں مدعی یا ملزم کوئی خاتون ہوتی۔ ان کے زیر نگرانی جینڈر کرائم سیل نے بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

شہر بانو نقوی

شہر بانو نقوی کا نام اچھرہ لاہور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد زبان زد عام ہوا لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ اُس وقت بھی میڈیا کی زینت بنی تھی جب انہوں نے پنجاب پولیس کے پیشہ ور اور تربیت یافتہ کتوں کے لیے اقدامات کیے۔
پنجاب پولیس کے پاس تفتیش میں معاونت کے لیے کئی تربیت یافتہ کتے ہوتے ہیں جو سرچ آپریشنز میں کام آتے ہیں۔

شہر بانو نقوی کا نام اچھرہ لاہور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد زبان زد عام ہوا۔

پولیس کے ان کتوں کی باقاعدہ ریٹائرمنٹ ہوتی ہے جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد انجکشن لگا کر مار دیا جاتا تھا۔  جب اے ایس پی شہربانو نقوی کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس قانون کو بدلنے کی ٹھان لی اور ایک ایسا نظام بنایا جس کے تحت ان کتوں کو دیکھ بھال کے لیے مختلف فیملیز کے حوالے کیا جاتا ہے۔
اے ایس پی شہربانو نقوی نے حال ہی میں اچھرہ کے کے علاقے میں پیش آنے والے واقعے میں بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بھیڑ سے خاتون کی جان بچائی تھی جس پر انہیں دنیا بھر سے پزیرائی ملی۔ انہیں سعودی سفیر کی جانب سے عمرہ کی دعوت بھی دی گئی۔ پنجاب پولیس نے انہیں قائد اعظم ایوارڈ دینے کی سفارش بھی کی جبکہ آرمی چیف عاصم منیر نے ان سے خصوصی ملاقات بھی کی۔
اے ایس پی شہر بانو نقوی نے اپنی تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر 2019 میں مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے انٹیلنجس بیورو میں بطور اسسٹینٹ ڈائریکٹر بھی فرائض انجام دیے۔

عائشہ بٹ

گجرانوالہ میں پیدا ہونے والی عائشہ بٹ آج کل چیف ٹریفک آفیسر گجرانوالہ ہیں۔ یہ سوشل میڈیا پر تب وائرل ہوئیں جب وہ اپنی بچی کو گود میں لیے فرائض انجام دہتی نظر آئیں۔
وہ بطور اے ایس پی ایس ڈی پی او فیروز والا سرکل شیخوپورہ میں تعینات تھیں اور ان کے شوہر  اے ایس پی عبدالوہاب خان اسلام آباد پولیس میں ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔
فیروز والا میں یہ کھلی کچپری کے دوران سائلین کو سن رہی تھیں اور ان کی گود میں آٹھ سالہ بچی تھی۔ سی ٹی او عائشہ بٹ خود سوشل میڈیا پر متحرک رہتی ہیں۔
عائشہ بٹ ایس پی اینٹی رائٹ فورس پنجاب بھی رہ چکی ہیں جہاں انہوں نے ذاتی پسند و ناپسند اور سفارش کلچر پر کھل کر باتی کی تھی۔
36 ڈولفن سکواڈ کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ ایک خاتون آفیسر کو ایس پی ڈولفن کے منصب پر تعینات کیا گیا تھا اور وہ عائشہ بٹ تھیں۔

گجرانوالہ میں پیدا ہونے والی عائشہ بٹ آج کل چیف ٹریفک آفیسر گجرانوالہ ہیں۔

عائشہ بٹ سوشل ورک کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی اور وکالت سے بھی شغف رکھتی تھیں لیکن ان کے علاقے میں ان شعبوں کے لیے ادارے نہیں تھے جبکہ انہیں لاہور میں تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ انہوں نے 2011 میں مقابلے کا امتحان پاس کیا لیکن ان کی تعیناتی نہ ہوسکی۔ اس کے بعد انہوں نے  2013 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے 45 ویں پوزیشن حاصل کی اور محکمہ پولیس جوائن کی۔ اُس سال یہ پولیس سروسز میں آنے والی یہ واحد خاتون تھیں۔
2016 میں ان کی ٹریننگ مکمل ہوئی اور یہ لاہور گارڈن ٹاؤن میں بطور اے ایس پی تعینات ہوئیں۔ اس کے بعد یہ پشاور میں تعینات رہی جبکہ وہاں سے یہ اسلام آباد آئیں اور یہاں انہوں نے وزارت داخلہ میں خدمات انجام دیں۔
انہوں نے گجروانولہ میں ملک کا پہلا ٹریفک تھیم پارک بھی قائم کیا جہاں لوگوں کی آگاہی کے لیے ٹریفک سگنلز لگائے گئے ہیں۔
عمارہ اطہر
عمارہ اطہر چیف ٹریفک پولیس آفیسر لاہور تعینات ہیں. یہ 2008 میں پولیس سروسز کا حصہ بنی۔ لاہور ٹریفک پولیس میں یہ پہلی خاتون پولیس افسر ہیں جو پورے لاہور کے ٹریفک کو سنبھال رہی ہیں جبکہ یہ لاہور میں اہم عہدے پر تعینات ہونے والی چوتھی خاتون ہیں۔
اس سے قبل عمارہ اطہر ایس پی ماڈل ٹاؤن رہ چکی ہیں۔ انہوں نے اٹک میں بطور ڈسٹرک پولیس آفیسر بھی کام کیا جبک یہ ڈی پی او بہاولنگر اور سرگودھا تعینات ہونے کے بعد کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے والی پنجاب کی پہلی خاتون بنی تھی۔
انہوں نے ایس ایس پی اپریشنز ملتان، ایس پی سکیورٹی اینڈ ایڈیشنل ایس پی انویسٹیگیشن لاہور بھی کام کیا۔ یہ امریکی ویمن لیڈرشپ ایوارڈ جیتنے والی پاکستان کی واحد خاتون آفیسر ہیں۔
انہوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کے والد رانا عابد سعید آئی جی رہ چکے ہیں جبکہ ان کے شوہر پولیس میں ایس ایس پی تعینات رہے ہیں۔

پری گل ترین

پشین بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پری گل ترین بلوچستان کی پہلی خاتون اے ایس پی ہیں۔ انہوں نے مقابلے کا امتحان 2017 میں پاس کیا۔ انہوں نے مقابلے کے امتحان میں بلوچستان بھر میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔

پشین بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پری گل ترین بلوچستان کی پہلی خاتون اے ایس پی ہیں۔

انہوں نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن سائنس(نمل) سے انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

آمنہ بیگ

آٹھ سال قبل 2016 میں سول سروسز میں آنے والی ایس پی آمنہ بیگ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے اکنامکس کی تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔
انہوں نے یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی جبکہ یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے پبلک پالیسی میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔

آمنہ بیگ نے  وزارت قانون و انصاف کی طرف سے ’اینٹی ریپ آرڈیننس‘ کی تیاری میں میں بھی حصہ ڈالا۔

 وہ اسلام آباد پولیس میں بطور اے ایس پی خدمات انجام دے رہی ہی‍ں۔ انہیں امریکہ کے انٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان جب خواتین اور خواجہ سراؤں کے لیے جینڈر پروٹیکشن یونٹ قائم کر رہی تھی تو اس میں ان کا بھی کردار تھا۔
انہوں نے وزارت قانون و انصاف کی طرف سے ’اینٹی ریپ آرڈیننس‘ کی تیاری میں میں بھی حصہ ڈالا۔
 

شیئر: