Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرانسیسی مسلمان بیرونِ ملک ملازمتوں کی تلاش میں کیوں ہیں؟

فرانس میں مسلمان تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
قابلیت کے باوجود فرانس میں ملازمتوں کے لیے تقریباً 50 انٹرویوز دینے کے بعد مسلم بزنس سکول کے گریجویٹ آدم نے اپنا بیگ اٹھایا اور دبئی میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے چل نکلے۔
شمالی افریقی نژاد 32 سالہ کنسلٹنٹ آدم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں یہاں فرانس کی نسبت زیادہ بہتر محسوس کر رہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم سب برابر ہیں۔ یہاں ایک باس ہو گا جو انڈین، عرب یا فرانسیسی شخص ہو گا۔‘
’میرے مذہب کو تسلیم کیا جاتا ہے۔‘
ایک نئی تحقیق کے مطابق مسلم پس منظر سے تعلق رکھنے والے اعلٰی تعلیم یافتہ فرانسیسی شہری جو اکثر تارکین وطن کے بچے ہوتے ہیں، فرانس چھوڑ کر لندن، نیویارک، مونٹریال یا دبئی جیسے شہروں میں ایک نئی شروعات کی تلاش میں ہیں۔
گذشتہ مہینے شائع ہونے والی تحقیق ’فرانس، یو لو اِٹ بٹ یو لِیو اِٹ‘ کے مصنفین نے کہا ہے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے افراد فرانس چھوڑ چکے ہیں۔
تحقیق کے مطابق ان کے آن لائن سروے کا جواب دینے والے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں میں سے 71 فیصد نے جواب دیا کہ وہ نسل پرستی اور امتیازی سلوک کی وجہ سے ملک چھوڑ چکے ہیں۔
آدم نے مکمل نام استعمال نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں ملازمت نے انہیں ایک نیا نقطہ نظر دیا ہے۔
فرانس میں ’جب آپ کچھ اقلیتوں سے ہوتے ہیں تو آپ کو وہاں دوگنا زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی فرانسیسی تعلیم کے لیے بے حد شکرگزار ہیں اور اپنے دوستوں، خاندان اور ملک کی ثقافتی زندگی کو یاد کرتے ہیں جہاں وہ پلے بڑھے ہیں۔
فرانس طویل عرصے سے اپنی سابقہ کالونیوں شمالی اور مغربی افریقہ سمیت دیگر ملکوں کے شہریوں کے لیے پسندیدہ ملک رہا ہے۔

فرانس میں مقیم مسلمانوں کے مطابق ان کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن آج ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں فرانس آنے والے مسلمان تارکین وطن کے بچوں کا کہنا ہے کہ وہ معاندانہ ماحول میں رہ رہے ہیں، خاص طور پر 2015 میں پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد جس میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایک 33 سالہ مراکشی نژاد فرانسیسی مسلمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اور ان کی حاملہ بیوی جنوب مشرقی ایشیا میں ’زیادہ پُرامن معاشرے‘ میں منتقل ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ فرانس کے زبردست کھانوں اور بیکریوں کے باہر قطاروں کو یاد کریں گے۔
بزنس سکول کے گریجویٹ کا کہنا ہے کہ ’فرانس میں ہمارا دم گھٹ رہا ہے۔‘
ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملازمت کرنے والا یہ ملازم جو ایک کم آمدنی والے مضافاتی علاقے سے پیرس منتقل ہوا تھا، نے بتایا کہ وہ دو برس سے اپارٹمنٹ کے اسی بلاک میں رہ رہا ہے۔
’لیکن پھر بھی وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اپنی عمارت کے اندر کیا کر رہا ہوں۔ یہ بہت ذلت آمیز ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ مسلسل تذلیل اس لیے بھی زیادہ مایوس کن ہے کیونکہ میں اس معاشرے میں بہت ایمانداری سے اپنا حصہ ڈالتا ہوں اور بہت زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہوں۔‘

جنوری میں مغربی فرانس میں اسلاموفوبیا کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

1978 کا ایک فرانسیسی قانون کسی شخص کی نسل یا مذہب سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے جس کی وجہ سے امتیازی سلوک کے بارے میں اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
آبزرویٹری فار اِن اِکویلیٹیز کا کہنا ہے کہ فرانس میں نسل پرستی میں کمی آ رہی ہے، 60 فیصد فرانسیسی عوام کا کہنا ہے کہ وہ ’بالکل بھی نسل پرست نہیں ہیں۔‘
تاہم اس کے مطابق ملازمت کے لیے فرانسیسی نام کے ایک امیدوار کے پاس شمالی افریقی امیدوار کی نسبت 50 فیصد زیادہ امکان ہوتا ہے۔
30 برس کے ایک تیسرے فرانسیسی الجیرین پروفیشنل جنہوں نے اعلٰی تعلیمی اداروں سے دو ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ جون میں دبئی ملازمت کے لیے جا رہے ہیں کیونکہ فرانس اب ایک ’پیچیدہ‘ ملک بن گیا ہے۔
انوسٹر بینکر کا کہنا ہے کہ ’فرانس میں مسلمان واضح طور پر دوسرے درجے کے شہری ہیں۔‘

شیئر: