جنگ کے بعد غزہ پر ممکنہ حکومت، اسرائیلی جنگی کابینہ میں اختلافات
جنگ کے بعد غزہ پر ممکنہ حکومت، اسرائیلی جنگی کابینہ میں اختلافات
ہفتہ 18 مئی 2024 17:28
ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو پر اعتماد میں کمی ہوتی جا رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
جنگ کے بعد غزہ پر حکمرانی سے متعلق اسرائیلی سیاسی رہنماؤں میں واضح تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ صورت حال ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے جب فلسطین کے مختلف علاقوں میں حماس نے دوبارہ لڑائی کا آغاز کر دیا ہے۔
اسرائیل کی فوج گذشتہ سات ماہ سے لڑائی لڑ رہی ہے جبکہ لبنان کے ساتھ متصل شمالی سرحد پر بھی ان کی ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کے ساتھ جھڑپیں جاری ہیں۔
اسرائیل نے پہلے یہ کہا تھا کہ شمالی غزہ سے حماس کا صفایا کر دیا گیا ہے لیکن اس علاقے میں حماس کے دوبارہ منظم ہونے کے بعد اسرائیلی جنگی کابینہ میں دراڑ پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گلینٹ کی جانب سے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر تنقید کی گئی کہ وہ جنگ کے بعد غزہ میں اسرائیلی عملداری کے قیام میں ناکام رہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے غزہ میں جنگ کے بعد فلسطینی قیادت کو یکسر مسترد کرنے نے اسرائیل کے سیاست دانوں اور نمایاں اتحادی امریکہ سے تعلقات میں دراڑ ڈال دی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صورت حال واضح نہ ہونے کا صرف حماس کو فائدہ پہنچ رہا ہے، جس کے رہنما کا اصرار ہے کہ ان کی شمولیت کے بغیر علاقے میں کوئی نئی اتھارٹی قائم نہیں کی جا سکتی۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تجزیہ کار میراو زونزین نے کہا کہ ’پیدا شدہ خلا کو پُر کرنے کے لیے کسی متبادل کے بغیر حماس پھلتی پھولتی رہے گی۔‘
تل ابیب یونیورسٹی کے ایک لیکچرر ایمانوئل ناوون نے بھی لگ بھگ انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔
ایمانوئل ناوون نے کہا کہ ’اگر صرف حماس کو غزہ میں چھوڑ دیا جائے تو یقیناً وہ ہر طرف نظر آئیں گے اور اسرائیلی فوج ان کا پیچھا کرنے پر مجبور رہے گی۔ وہاں یا تو آپ اسرائیلی فوجی حکومت قائم کریں یا عرب قیادت والی حکومت۔‘
اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے بدھ کو ایک ٹیلی وژن خطاب میں کہا تھا کہ ’میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں اور اعلان کریں کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر سویلین اتھارٹی قائم نہیں کرے گا۔‘
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی جنگی منصوبہ بندی آرمی چیف ہرزی حلوی کے ساتھ ساتھ شِن بیٹ سکیورٹی ایجنسی کے اعلیٰ حکام کی تنقید کی زد میں آئی ہے۔
نیتن یاہو پر امریکہ کی طرف سے بھی دباؤ ہے کہ وہ تنازعات کو جلدی ختم کریں اور انسدادِ بغاوت کی طویل مہم میں الجھنے سے گریز کریں۔
امریکہ نے اس سے قبل جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے نئے طرز کی فلسطینی اتھارٹی کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
لیکن نیتن یاہو نے جنگ کے بعد غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی کردار کو مسترد کرتے ہوئے جمعرات کو کہا تھا کہ ’وہ (فلسطینی اتھارٹی) دہشت گردی کی حمایت کرتی ہے، دہشت گردی کی تعلیم دیتی ہے اور اس کی مالی معاونت کرتی ہے۔‘
نیتن یاہو حماس کو ’ختم کرنے‘ کے اپنے عزم کے ساتھ سختی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فوجی فتح کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں نیتن یاہو پر اعتماد میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔
سوفان گروپ تھنک ٹینک میں پالیسی اور ریسرچ کے ڈائریکٹر کولن پی کلارک نے اپنی ایک ایکس پوسٹ میں کہا کہ ’غزہ پر حکومت کرنے کے معاملے میں نیتن یاہو کی منصوبہ بندی میں ناکامی پر یواو گیلنٹ کی تنقید کے ساتھ اسرائیلی جنگی کابینہ میں کچھ حقیقی دراڑیں ابھرنے لگی ہیں۔‘
انہوں نے نیتن یاہو کا عرفی نام (بی بی) استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں، جن میں اسرائیل کے پرجوش حامی بھی شامل ہیں، جنہیں بی بی پر اعتماد ہے۔‘