Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روزنیا موڑ ، روز نت نئے انکشافات

جے آئی ٹی میں وزیراعظم کی پیشی کا معاملہ ایک ملاقات میں طے ہو جائیگا یا طول کھینچے گا ، بہتر ہے کہ حالات پر نظر رکھی جائے
* * * * صلاح الدین حیدر* * * * *
سوچتے، سوچتے تھک گیا ہوں، کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم۔ جی ہاں، حالات اور واقعات ہی کچھ ایسے ہیں کہ اُنہیں کوئی صحیح نام دینا مشکل ہی نہیں قریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ عنوان میں ہی لکھ دیا کہ تبصرے، تجزیے اور افواہیں۔ سب ہی کچھ تو ہے۔ پاکستانی سیاست کا رُخ بدلتا نظر آنے لگا ہے۔ کچھ مبصرین مجھ سے متفق ہوں گے، لیکن بہت سے اختلاف بھی کریں گے۔ پانامہ لیکس نہ ہوئی، عمروعیار کی زنبیل ہوگئی۔ کہانی ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتی، روز ایک نیا موڑ، روز نت نئے انکشافات۔ مؤرخین بھی سوچتے ہوں گے کہ آخر اُنہیں کب موقع ملے گا کسی نتیجے پر پہنچنے کا۔ جب یہ بیکار سی سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی، اُس وقت تو کہانی، ہوسکتا ہے کچھ عجیب ہی راستہ اختیار کرلے۔
جی ہاں جمعرات 15 جون کو وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر فوج اور دوسرے اداروں کے نمائندوں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم اُن سے سوال و جواب کرچکی ہوگی۔ معاملہ ایک ہی ملاقات میں اختتام پذیر ہوجائے گا یا طول کھینچے گا، وثوق سے نہیں کہہ سکتے، بہتر ہے کہ حالات اور تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے واقعات پر نظر رکھی جائے۔ کیا ہوگا، اس کا علم تو غیب کو ہی ہے لیکن برسراقتدار جماعت نواز لیگ پریشان نظر آتی ہے۔ اُن کا دفاع کرنے والی انڈر 19 ٹیم (جو طلال چوہدری، دانیال عزیز اور وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب پر مشتمل ہے) کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں، اُنہیں سمجھ نہیں آتا کہ نواز شریف کے دفاع میں کیا کہیں، کس سوال کا کیا جواب دیں۔ جب ایسے حالات ہوں تو ظاہر ہے عقل کام نہیں کرتی۔ دانیال عزیز (جو جنرل پرویز مشرف کے ساتھی ہونے کے ناتے) نواز شریف کے خلاف روز زہر اُگلتے تھے، آج سب سے آگے آگے نظر آتے ہیں، لیکن پھر غور سے دیکھا جائے تو سوال کھیرا ،جواب ککڑی، سوال کچھ، جواب کچھ۔ نواز شریف پر لگنے والے الزامات کا جواب تو دیا نہیں جاتا، سارا ملبہ عمران خان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ قوم کی اُمیدوں کے برخلاف جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے نہ صرف نواز شریف کو تحقیقات کیلئے طلب کرلیابلکہ سپریم کورٹ کے سامنے شکایات کا انبار لگادیا کہ اُس کے کام میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کسی دھماکے سے کم نہیں۔ اکثر و بیشتر لوگ تو انگشت بدنداں رہ گئے اور عمران خان کا بار بار یہ کہنا کہ نواز شریف عہدے پر ہوتے ہوئے تحقیقات پر اثرانداز ہوئے، صحیح ثابت ہوگیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات کیے گئے۔ مثلاً یہ کہ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین نے ریکارڈ تبدیل کروادیے، وزیراعظم کے دیرینہ دوست طارق شفیع کو وزیراعظم ہائوس بلاکر یہ احکامات دیے گئے کہ اُنہوں نے صرف وہی کچھ کہنا ہے جو اُن کو بتایا گیا۔
اس پس منظر میں اگر طارق شفیع کی شکایات کہ اُن کو دوران تفتیش ذلت آمیز طریقے سے گزرنا پڑا، تو یہ بات صاف طور پر کہی جاسکتی ہے کہ طارق شفیع نے کچھ تو چھپانے کی کوشش کی تھی، جس کی وجہ سے اُنہیں 13 گھنٹے تک سوال و جوابات کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ایسا ہی کچھ وزیراعظم کے صاحبزادے، حسین نواز کے ساتھ بھی پیش آیا۔ اُنہیں5بار جے آئی ٹی نے بلا کر گھنٹوں تحقیقات کیں۔حسین نواز کا یہ کہنا کہ جے آئی ٹی کوئی ثبوت اب تک اُن کے یا اُن کے والد کے خلاف نہیں حاصل کرسکی، محض افسانہ لگتا ہے۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن نے نہ صرف نواز شریف کے اہل خانہ کی شوگر مل کے ریکارڈ کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی بلکہ جب یہ بات عوام النّاس کے سامنے کھل کر آگئی، تو انکاری ہوگئی۔ اُس کے ایک افسر کو حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر تحقیقات سے علیحدہ کردیا گیابلکہ اُس کیخلاف محکمانہ کارروائی بھی شروع کردی گئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا آخر ہوا ہی کیوں؟ حسین نواز اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ نے جے آئی ٹی کو موردِ الزام ٹھہرایامگر یہ بھول گئے کہ اُن کے ہر نئے بیان کے بعدسپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی عوام کی نظروں میں اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
حکومتی اہلکار یہ بھول جاتے ہیں کہ لبوں کو بند رکھنے میں ہی اُن کی عافیت ہے۔ جتنا وہ شور مچائیں گے، اُتنا ہی اُن کی مقبولیت میں کمی آتی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت 2بہت اہم اور پیچیدہ سوالات زیرغور ہیں۔ ایک طرف تو وہ نواز شریف اور اُن کے اہل خانہ کیخلاف غیر معمولی اثاثہ جات بنانے کی تحقیقات میں مصروف ہے تو دوسری جانب عمران خان کے خلاف بھی اسی قسم کی تحقیقات اُس کے پیش نظر ہے۔
عمران خان تو شاید یہ کہہ کر چھوٹ جائیں کہ اُن کی سابق اہلیہ جمائما نے 15 سال پرانے ریکارڈ نکلوا کر عمران کی مالی مدد کے ثبوت فراہم کردیے ہیںلیکن عمران سے بھی غلطی ہوئی کہ اُنہوں نے الیکشن کمیشن کے سوالات کے جوابات دینے سے انکار کردیا۔ اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، ٹی وی پر خبریں چیخ چیخ کر پڑھی جارہی ہیں کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی بات مان لی ہے کہ اُسے پورا حق ہے کہ وہ سیاست دانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔اس اعلان پر (ن) لیگ کو عمران خان کے خلاف عوام کو بہکانے کیلئے خاصا مواد ہاتھ آگیالیکن خیر تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں، وہ اس وقت نواز شریف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں، اُنہیں اپنے مستقبل کی پروا نہیں، وہ کسی طرح نواز شریف اور بعد میں آصف زرداری سے قوم کو چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں، فی الوقت تو یہی اُن کا مقصود ہے جس میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
جے آئی ٹی نے یہ بھی شکایت لکھ کر کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (جو ٹیکسوں کا حساب رکھتا ہے) نے بھی نواز شریف اور اہل خانہ کے بارے میں صرف 5سال کا ریکارڈ پیش کیا جبکہ جے آئی ٹی نے اُن سے پچھلے 60/65 برسوں کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔ (ن) لیگ اس پر جزبز نظر آتی ہے کہ آخر گڑھے مُردے کیوں اُکھاڑے جارہے ہیں لیکن اس کی شروعات تو نواز شریف نے خود کی تھی۔ اُنہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں ہی والد کا ذکر کیا۔ وہ اسٹیل مل کے مالک تھے اور اصل رقم وہیں سے آئی۔ عام خبر یہ بھی ہے کہ جے آئی ٹی نے نواز شریف کے مرحوم بھائی عباس شریف کے بارے میں بھی ریکارڈ طلب کرلیا۔ اُن کے والد مرحوم اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اُن کی بہو اسماء ڈار (جو نواز شریف کی چھوٹی بیٹی ہیں) کے بارے میں بھی تفصیل مانگ لی ہیں۔ ہمیں تو اس بات کا علم نہیں کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی؟ یہی خیال کیا جاسکتا ہے کہ حسین نواز نے دوران تفتیش کچھ ایسے حقائق چھپائے یا اُن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے بات باپ، دادا اور مرحومین تک جاپہنچی۔ اس پر بھی بحث جاری ہے کہ نواز شریف کو جے آئی ٹی کے سامنے طلب کیے جانے پر اسلام آباد میں اُنکی حمایت میں بینرز کیوں لگ گئے۔ وہی پرانا نعرہ: قدم بڑھائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ مریم اورنگزیب نے اس سے لاتعلقی کا اعلان تو کردیا کہ لوگ اگر اپنی مرضی سے بینرز لگاتے ہیں تو یہ اُن کا جمہوری حق ہے لیکن تحریک انصاف کے صفِ اوّل کے رہنما اسد عمر کا یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسلام آباد کے میئر کی طرف سے کیسے بینرز لگ گئے، وہ قومی خزانہ لٹا رہے ہیں۔ مریم اورنگزیب سوال پر جزبز ہوئیں لیکن پھر خاموشی اختیار کرلی۔ جے آئی ٹی کی شکایت کہ حکومت کے بیشتر محکمے تعاون نہیں کررہے بلکہ تحقیقات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں، کچھ نہ کچھ گل ضرور کھلائیگی۔ عمران خان کو موقع ہاتھ آگیا ہے کہ نواز شریف استعفیٰ دے دیں تاکہ تحقیقات آزادانہ طور پر ہوسکے۔ اس وقت جے آئی ٹی سخت دبائو کا شکار ہے جس سے صحیح نتائج کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ اب دیکھیں سپریم کورٹ کیا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔ لگتا تو نہیں کہ وہ وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کرے، لیکن حالات ایسے ہیں کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

شیئر: