پاکستان مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کی مدد سے وفاق میں حکومت بنائی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مگر کب سے۔۔۔؟ جواب سادہ سا ہے، آٹھ فروری کے بعد سے، یعنی پی ٹی آئی بیک فٹ پر تھی، رہنما روپوش تھے، اسمبلیوں میں نمائندگی نہ تھی، ان گنت مقدمات کا سامنا تھا، میڈیا پر گنے چنے دستیاب رہنما محتاط انداز میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ مگر فرق کب اور کیسے پڑا؟
ظاہری بات ہے، دھاندلی کے الزامات کے باوجود ووٹ اور مقبولیت کا تاثر خاصی حد تک درست ثابت ہونے سے، یعنی سرکار بنی مگر بظاہر طاقتور مینڈیٹ کے باوجود طاقتور دکھائی دینے میں کامیاب نہ ہو پائی۔ بڑوں کی سپورٹ کے باوجود عوامی اور معاشی سپورٹ تاحال حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بس یہیں سے فرق واضح ہونا شروع ہو گیا۔
نمائندگی ملنے سے منظر سے غائب رہنما بھی پردہ سکرین پر آئے، ایوانوں میں گرجے برسے اور حلقوں میں آئے گئے۔ سیاسی طور پر حرکت میں دکھائی دینے لگے۔
ن لیگ اور پی پی پی حکومت بنانے کے باوجود متبادل بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ معاشی فرنٹ پر 50 برسوں میں کم ترین سرمایہ کاری کی خبر منظر عام پر آئی اور رہی سہی کسر کسان کے ساتھ ہوئی زیادتی نے پوری کر ڈالی۔ سیاسی استحکام خواب رہا اور معاشی اعشاریے مثبت ہونے کا عملی تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے ساتھ دوسری جانب پی ٹی آئی دستیاب مینڈیٹ کو تمام فرنٹس پر کامیابی سے منوانے میں مصروف رہی۔
پی ٹی آئی اقوام متحدہ کے مبصرین سے لے کر، امریکی اور برطانوی سفارتکاروں تک پہنچی، برطانیہ اور امریکہ میں آواز بلند کی جاتی رہی۔ اور اب صورتحال مزید دلچسپ اس وقت ہوئی جب پاکستان کے ممتاز ترین پراپرٹی ٹائیکون نے اچانک ایک ٹویٹ کی صورت میں بین السطور اعلان کیا کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
خبر تھی کہ القادر یونیورسٹی کے مدعے پر زمین دینے کے معاملے میں کپتان کے خلاف کرپشن کی گواہی ملے گی تو کیس تگڑا ہو جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، زلفی بخاری بھی ٹویٹ میں ایسے امکان کو رد کر چکے۔ کیا یہ سب فطری طور پر ہو رہا ہے یا کہیں سے اشاروں کی بنیاد پر؟ جواب سادہ مگر قدرے پیچیدہ ہے۔
ماضی میں مقتدرہ کو ہر سیاسی ایڈوینچر میں تین ستونوں کی بھر پور حمایت اور سپورٹ حاصل رہی اور اسی وجہ سے یہ تجربات عملی شکل اختیار کر سکے۔ یہ تین ستون ہیں، عدالت، عوام اور ڈالرز۔ افغان جنگ ہو یا مشرف دور کی عالمی صورتحال، پاکستان عالمی طاقتوں کے لیے مرکز نگاہ تھا، پاکستان کی ضرورت تھی، پاکستان میں ڈالرز آرہے تھے، عدلیہ کی ہمنوائی کے علاوہ سیاستدانوں سے تنگ عوام بھی ایسے کارناموں میں مقتدرہ کی تائید میں دکھائی دیے۔ لیکن اب کیا ہوا؟
عدالتی ایوانوں سے تائید کے بجائے خطوط اور دباؤ کی شکایات برملا سامنے آئیں۔ اس کے بعد پے در پے عدالتوں سے ریلیف کا سلسلہ شروع ہوا، اور پھر یوں لگا جیسے ادارے آمنے سامنے آ چکے۔ تصادم کی سی فضا بدستور قائم ہے۔
مقتدرہ اور سرکار کو ماضی کی نسبت اس وقت وہ تائید دستیاب نہیں جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ عالمی فرنٹ پر کسی بڑی گیم کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے نظر کرم رہی نہ ڈالرز ملے۔ تو یوں مقتدرہ اور سرکار ماضی میں دستیاب ان تین ایڈوانٹجز سے محروم دکھائی دی۔
ان تین ایڈوانٹجز سے محروم ہوتی سرکار پر کپتان مسلسل فرنٹ فٹ پر آکر اٹیک کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ مسلسل جارحانہ انداز میں فیلڈ پوزیشن سیٹ کریں گے اور مزید دباؤ کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ نتائج اپنے حق میں کرنے کی کوشش میں دکھائی دیں گے۔
اور یہ وہ مقام ہے جہاں پی ٹی آئی سوشل میڈیا فرنٹ پر پہلے سے کہیں زیادہ متحرک اور توانا دکھائی دے رہی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی کمیشن رپورٹ پر ان کی مہم ہو یا رؤف حسن پر ہوئے حملے کے ہنگام ان کا طرز عمل ہو۔ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں اس فرنٹ پر پی ٹی آئی اب کُھل کر کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بدلے میں سرکاری وزرا کی پریس کانفرنس رد عمل کی حد تک محدود ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی دستیابی یا ان کا بیانیہ دوربین لگا کر کھوجنا پڑتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے مزید کسی ایڈوینچر سے بھی شاید مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں تو پھر کیا ایمرجنسی لگے گی؟
ایمرجنسی یا کسی اور آپشن کی گنجائش اب سسٹم میں رہی نہیں۔ اٹھاون ٹو بی ختم ہو چکی۔ ہواؤں کے رخ بدل رہے ہیں، دستیاب سپیس میں پی ٹی آئی پہلے سے کہیں زیادہ موثر دکھائی دے رہی ہے، نظام کو دستیاب بنیادی سپورٹ کمزور پڑ رہی ہے۔ امریکی سفیر اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں جا کر مل رہے ہیں۔ برطانیہ بیٹھی قیادت وہاں کے ایم پیز سے مل رہی ہے۔ جیرمی کاربن ایم پیز کا وفد اڈیالہ جیل بھیجنے کا پلان کر رہے ہیں۔
ایک موقع پر عمر ایوب کی قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران جب پی ٹی وی نے ان کی تقریر میوٹ کی تو بڑے ادارے کے اینکر نے براہ راست کہا کہ ’ناظرین یہ تقریر پی ٹی وی کی جانب سے میوٹ کی جا رہی ہے، ہم اسے ایز اٹ از نشر کر رہے ہیں۔‘
لیکن یاد رہے کہ بدلے میں سسٹم بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ سسٹم بہرحال سسٹم ہوتا ہے، سسٹم نے چلنا ہوتا ہے۔ سسٹم اپنی بقا کے لیے کس حد تک جاتا ہے، آنے والے چند ہفتے اس کا تعین کر دیں گے۔