نیب ترامیم کیس: عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد
نیب ترامیم کیس: عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد
جمعرات 30 مئی 2024 10:03
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نیب ترامیم کو چیلنج کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے۔ آئندہ سماعت پر بھی عمران خان اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔
کیس کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے متعلق مشاورت کے لیے ججز نے سماعت میں وقفہ کیا تھا۔
جمعرات کو سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالتی کاروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا کی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ گزشتہ سماعتیں براہِ راست نشر ہو چکی ہیں لہٰذا آج کی عدالتی کاروائی بھی براہِ راست نشر ہونی چاہیے۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ تکنیکی کیس ہے عوامی مفاد یا دلچسپی کا معاملہ نہیں ہے، گزشتہ سماعت براہ راست نشر نہیں ہوئی تھی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے لہٰذا براہ راست دکھانا چاہیے۔
اس کے بعد ججز آپس میں مشاورت کرنے کے لیے چیمبر میں چلے گئے تھے۔
مشاورت کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کی درخواست چار ایک کے فیصلے سے مسترد کر دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی رائے دی تھی۔
وقفے کے بعد سمات دوبارہ شروع
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے کہا ’وزیراعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا، فیصلہ پسند آئے تو جج ٹھیک پسند نہ آئے تو جج کالی بھیڑیں بن جاتے ہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کی کہ یہ الفاظ موجودہ ججز کے لیے نہیں استعمال کیے گئے۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ’ہمیں سابق وزیراعظم اورحکومت سے بھی گلہ ہے۔ جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تومخالفین پر مقدمات بنا دیے جاتے ہیں۔ دائیں طرف والے بائیں طرف جائیں تونیب ان کے خلاف استعمال کیا جاتا۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ اپنے مسائل خود حل کیوں نہیں کرتا، سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات کیوں لائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پرلاگو ہوتا رہا ہے جوحکومت سے باہر رہے۔
عمران خان کا چیف جسٹس سے مکالمہ
عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بولنے کا موقع دیا تو انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ سے ایک گزارش ہے! بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ہماری درخواستیں آپ کے پاس زیر التواء ہیں۔ نو مئی کا کیس ہے جس میں ہم نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ دوسرا مقدمہ آٹھ فروری کے انتخابات میں تاریخی ڈاکے کا ہے۔ مہربانی کر کے ان مقدمات کو جلد مقرر کریں۔‘
چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا کہ یہ بات اس وقت نہ کریں، نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا ’چیف جسٹس صاحب آپ سے بات کرنے کا موقع پھر نہیں ملے گا۔ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مجھے اپنے وکلا سے بھی نہیں ملنے دیا جاتا۔‘
چیف جسٹس نے عمران خان سے استفسار کیا کہ انہوں نے کس وکیل سے ملنا ہے جس پر بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ وہ خواجہ حارث سمیت دیگر چند وکلا سے ملنا چاہتے ہیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے عمران خان سے پوچھا وہ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کریں گے؟
اس پر عمران خان نے کہا کہ وہ آدھے گھنٹے کے دورانیے میں دلائل پیش کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ انہیں تیاری کے لیے مواد نہیں ملتا اور نہ ہی وکلاء سے ملاقات کرنے دی جاتی ہے، اڈیالہ جیل میں سب کچھ کرنل صاحب کنٹرول کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو اپنے ایک دو ساتھی وکلا کے ہمراہ عمران خان سے ملنے کی ہدایت دے دی جس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔
اگلی سماعت پر بھی عمران خان اپنے دلائل جاری رکھیں گے
جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان وڈیو لنک کے ذریعے اڈیالہ جیل سے عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
مرکزی مقدمے میں درخواست گزار تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان ہیں جن کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کو یقینی بنایا گیا ہے۔
اس سے قبل تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو عمران خان کی درخواست پر کالعدم قرار دیا تھا۔
تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔