نیب ترامیم کیس، سپریم کورٹ میں عمران خان کی ویڈیو لنک سے پیشی
عمران خان اس وقت مخلتف مقدمات میں سزا یافتہ ہونے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔ فوٹو: پی ٹی آئی ایکس
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر دائر انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت ملتوی کر دی ہے۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیے جبکہ عمران خان نے بذریعہ ویڈیو لنک عدالتی کارروائی میں شریک ہوئے۔
جمعرات کو مقدمے کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
مرکزی مقدمے میں درخواست گزار تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان ہیں، جن کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری یقینی بنائی گئی۔
مقدمے کی سماعت کے آغاز پر کمرہ عدالت تحریک انصاف کے رہنماؤں، وکلا اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔
سماعت کے آغاز کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں لگی دو سکرینوں پر عمران خان کو اڈیالہ جیل سے براہ راست دکھایا گیا۔
عمران خان نے فیروزی رنگ کی شرٹ اور سیاہ رنگ کا ٹراوزر پہنا ہوا تھا اور تازہ شیو بنائی ہوئی تھی تاہم وہ دوران سماعت کافی مضطرب نظر آئے۔
ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی اور وہ ان کو بار بار مل رہے تھے جس سے لگ رہا تھا کہ اُن کی نیند پوری نہیں ہوئی۔ وہ کچھ دیر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر آرام کرتے بھی نظر آئے اور ایک دو مرتبہ اپنے ہاتھ سر کے پیچھے رکھ کر ہلکی سی ورزش بھی کی۔
اس دوران انہوں نے وہاں موجود چند سکیورٹی اہلکاروں سے بات چیت بھی جس کے بعد انہوں نے اڈیالہ جیل کے کمرے کی بتیاں جلائیں اور بجھائیں۔ عمران خان نے اپنی عینکُ منگوا کر لگائی اور پھر اتار دی۔
یوں لگ رہا تھا جیسے کمرے میں روشنی اُن کو تنگ کر رہی ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اور وکیل مخدوم علی خان سے ان کے موقف کے حق میں دلائل سنے لیکن تقریبا پہلے ڈیڑھ گھنٹے کی سماعت میں عمران خان سے کوئی بات نہیں کی گئی۔
سماعت کے دوران چند منٹوں کے لیے عمران خان کو آف سکرین کر دیا گیا تاہم تھوڑی ہی دیر بعد ان کو دوبارہ براہ راست دکھانا شروع کر دیا گیا۔
اس دوران کمرہ عدالت سے اُن کی متعدد تصاویر وائرل ہو گئیں۔
چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ وہ مرکزی کیس میں وکیل تھے، اور عدالت اُن کو بھی سننا چاہے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران خواجہ حارث کے موجود نہ ہونے پر مایوسی ہوئی تھی۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتوا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی؟ وکیل نے بتایا کہ جی، اسے قابل سماعت قرار دیا گیا تھا۔
وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ روز معلوم کیا تھا کہ وہاں درخواست اب تک زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں۔
انہوں نے وفاقی حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ دلائل دیتے وقت آواز اونچی رکھیں تاکہ کیس کے رسپانڈنٹ (عمران خان) ویڈیو لنک پر اُن کو سُن سکیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022ء کو دائر کی گئی تھی۔ جبکہ سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر6 جولائی 2022ء کو لگا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا۔
مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھا۔
گزشتہ سماعت پر عدالت میں عمران خان کا خط پیش کیا گیا تھا جس میں انہوں نے عدالت میں پیش ہونے کی استدعا کی تھی۔
عمران خان اس وقت مخلتف مقدمات میں سزا یافتہ ہونے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔
اڈیالہ جیل انتظامیہ کو گزشتہ روز سپریم کورٹ کے احکامات موصول ہوئے تھے جس کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے اُن کو عدالت عظمیٰ میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے انتظامات کیے گئے۔