Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ضمانتی‘ لاعلم، لاہور کے رہائشی کے شناختی کارڈ پر 22 تھانوں میں 100 مچلکے جمع

اشفاق علی نے پنجاب پولیس کو درخواست دی تھی۔ (فوٹو: ایکس)
یہ سال 2023 کی بات ہے جب لاہور کے رہائشی اشفاق علی کا موبائل فون چوری ہوا۔ انہوں نے تھانہ لیاقت آباد میں موبائل فون چوری کا مقدمہ درج کروا دیا۔ اشفاق علی پہلے سے ہی پریشان تھے لیکن جب ان سے مقدمہ کے اندراج کے لیے قومی شناختی کارڈ نمبر مانگا گیا تو ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اشفاق علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ تھانہ لیاقت آباد میں فرنٹ ڈیسک پر موجود اہلکار نے جب میرا قومی شناختی کارڈ نمبر کمپیوٹر میں درج کیا تو سکرین پر ایک طویل فہرست نمودار ہوئی جس میں میرے شناختی کارڈ نمبر پر متعدد ملزموں کے ضمانتی مچلکے جمع ہونے کا ریکارڈ تھا۔‘
اشفاق علی کے مطابق ’مجھ سے فرنٹ ڈیسک اہلکار نے استفسار کیا  کہ آپ نے اتنے مقدموں میں ضمانتیں کیوں دلوائی ہیں؟ میں حیران ہوا کیونکہ میں نے کبھی زندگی میں کسی کی ضمانت نہیں کروائی۔‘
’میں نے اہلکار کو بتایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ شاید آپ کے سسٹم میں خرابی ہو گی لیکن اہلکار نے کمپیوٹر سکرین میری طرف کر دی جس پر ایک طویل فہرست دکھائی دے رہی تھی۔‘
ان کے مطابق اس وقت ان کو موبائل فون چوری ہونے کا غم تھا اس لیے انہوں نے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔

22 تھانوں میں 100 سے زائد ضمانتی مچلکے

اشفاق علی سے شاذونادر مختلف تھانوں سے رابطہ بھی کیا جاتا رہا لیکن انہوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ ان کے مطابق دو روز بعد انہوں نے جب اس معاملے پر غور کیا تو اس حوالے سے سارا ریکارڈ نکلوایا جس سے یہ انکشاف ہوا کہ لاہور کے 22 تھانوں میں میرے شناختی کارڈ پر 90 سے زائد ضمانتی مچلکے جمع کروائے گئے ہیں۔
’میرے والد کا نام محمد شریف ہے اور ہم مسلمان ہیں لیکن ان 90 سے زائد مچلکوں میں ایک مچلکہ ایسا بھی ہے جس میں میرا شناختی کارڈ نمبر استعمال کرتے ہوئے میرا نام اشفاق مسیح جبکہ والد کا نام محمد یوسف لکھا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے عدالتی نظام میں اس قدر خامیاں موجود ہیں کہ ایک شخص کا شناختی کارڈ غلط استعمال ہو رہا ہے اور پھر اسے مسیحی بھی ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے والا اشفاق کہاں ہے؟‘
اشفاق علی نے اس حوالے سے سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اور آئی جی پنجاب کو بھی درخواست دی تھی۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کی جانب سے انہیں بلایا گیا اور بتایا گیا کہ ان کا یہ معاملہ عدالتی کارروائی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

اشفاق علی کے مطابق لاہور کے 22 تھانوں میں ان کے شناختی کارڈ پر 100 سے زائد ضمانتی مچلکے جمع ہو چکے ہیں (فوٹو: ایکس)

اشفاق علی کے بقول انہوں نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو درخواست دی لیکن وہاں بھی شنوائی نہیں ہو سکی۔ ’پھر مجھے وہاں کسی نے مشورہ دیا کہ میں کریمنل ڈویژن کے انچارج جج طاہر محمود کے سامنے پیش ہو کر معاملہ حل کروا سکتا ہوں۔‘
اشفاق علی نے سینیئر سول جج طاہر محمود کی عدالت میں درخواست دائر کی اور کئی دنوں کے بعد جب وہاں ان کے معاملے پر سماعت ہوئی تو جج طاہر محمود نے انہیں کہا کہ ’ارد گرد کیمرے لگے ہوئے ہیں آن دی ریکارڈ ٹھیک بتائیں کہ کیا آپ نے حقیقت میں مچلکے جمع نہیں کروائے؟‘
اشفاق علی کے مطابق انہوں نے جج کے سامنے بیان دیا کہ انہوں نے زندگی میں کبھی کسی کے ضمانتی مچلکے جمع نہیں کروائے۔ ’میں نے کہا کہ اگر ثبوت ملے تو مجھے سزا دے دی جائے لیکن اگر کچھ نہیں ملتا تو میرا نام کلیئر کر دیا جائے۔‘
اردو نیوز کے پاس موجود مذکورہ جج کے فیصلے میں انہیں حکم دیا گیا کہ وہ 93 مچلکوں میں پیش ہو کر اپنا نام خارج کروا دیں۔
اشفاق علی کے بقول ’میری غیر موجودگی میں میرے شناختی کارڈ پر مچلکے جمع ہوتے رہے۔ مجھے کہا گیا کہ ان 93 مچلکوں میں آپ کو ہر عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ یہ تو 93 مچلکوں سے متعلق فیصلہ تھا لیکن اس کے بعد 7 مزید مچلکے جمع ہو گئے تھے۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس تھانے، کس عدالت اور کس جج کے پاس جاؤں؟ میں نے اب تک صرف فوٹو کاپیوں پر 8 ہزار روپے خرچ کر ڈالے ہیں۔‘

 شناختی کارڈ کا غلط استعمال کیسے ہوا؟

اشفاق علی بتاتے ہیں کہ ’ان کے ایکسپائرڈ شناختی کارڈ پر لاہور کے 22 تھانوں میں 100 ضمانتی مچلکے جمع ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ سال 2020 سے چلتا آرہا تھا اور 2023 میں موبائل فون چوری ہونے کے بعد جب وہ تھانے میں مقدمہ کے اندراج کے لیے گئے تو انہیں ان مچلکوں کے بارے میں علم ہوا۔‘

ایڈووکیٹ منیر احمد بھٹی کہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں فوٹو کاپی مافیا اور دیگر عناصر ملوث ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

ان کے بقول ’میں نے ماڈل ٹاؤن کچہری میں اپنے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بنوائی تھی، میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرا شناختی کارڈ یہیں سے غلط ہاتھوں تک پہنچا ہے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ شناختی کارڈ کی کاپی بناتے ہیں تو کچھ کاپیاں خراب ہو جاتی ہیں اور بسااوقات ہارڈ فارم میں دکاندار کے پاس رہ جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کے غلط استعمال ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔‘
اردو نیوز کے پاس موجود مقدمات کی فہرست کے مطابق اشفاق علی کا شناختی کارڈ چوری، شراب، جوا، فوڈ اتھارٹی، ون ویلنگ، پتنگ بازی اور دیگر مقدمات کے ضمانتی مچلکوں میں استعمال ہوا ہے۔

’یہ سنگین جرم ہے‘

ماڈل ٹاؤن کچہری میں موجود ہائی کورٹ کے وکیل اور دستاویزی معاملات کے ماہر ایڈووکیٹ منیر احمد بھٹی کے مطابق یہ سنگین جرم ہے لیکن اس سے عوام کی غفلت بھی واضح ہوتی ہے۔
منیر احمد بھٹی اشفاق علی کے اس کیس کو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس حوالے سے سردست رٹ دائر نہیں کی گئی۔ ’اب سیشن جج سے اپیل کریں گے اگر یہاں شنوائی نہ ہوتی تو پھر ہائی کورٹ میں رٹ دائر کریں گے۔‘
ان کے مطابق ’یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور سادہ لوح اشفاق کو اس کا علم نہیں تھا۔ یہ معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا ہائی کورٹ کے جج دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کبھی مچلکے دیے ہی نہیں اور نہ ہی یہ کسی قانونی معاملے میں کچہری آئے اور وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔‘
ایڈووکیٹ منیر احمد بھٹی کہتے ہیں کہ ’اس پورے معاملے میں فوٹو کاپی مافیا اور دیگر عناصر ملوث ہیں۔ اب تو یہ یہاں کامن پریکٹس بن چکی ہے۔ سٹام پیپرز بھی جعلی بنائے جاتے ہیں۔ جیسے ہی کسی شناختی کارڈ کی کاپی فوٹو کاپی مافیا کے ہاتھ لگتی ہے تو کوئی بھی چند پیسے دے کر وہ کاپی حاصل کر لیتا ہے اور پھر یوں اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’جج صاحبان عموماً اس سے متعلق کئی سوالات کرتے ہیں لیکن اشفاق علی کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ ضمانتی مچلکے جمع ہوتے وقت باقاعدہ نام، ولدیت، شناختی کارڈ ایکسپائر ہے یا نہیں، ضمانتی متعلقہ ضلع سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں؟ ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔‘

اس نوعیت کی جعلسازی سے کیسے بچا جائے؟

ایڈووکیٹ منیر احمد بھٹی کے مطابق شناختی کارڈ کا اگر اس طرح بے دریغ استعمال ہوا ہو تو یہ کریمنل ریکارڈ آفس (سی آر او) کا حصہ بنتا ہے۔

 منیر احمد بھٹی کے مطابق شناختی کارڈ کا اگر اس طرح بے دریغ استعمال ہوا ہو تو یہ کریمنل ریکارڈ آفس کا حصہ بنتا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

وہ بتاتے ہیں کہ ’کچہریوں میں ہر جگہ فوٹو کاپی والے موجود ہوتے ہیں اور لوگ جلد بازی میں ان سے فوٹو کاپی کروا لیتے ہیں۔ جلد بازی کا نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے۔ اس شناختی کارڈ کی رنگین کاپی بھی بنوائی جاتی ہے اور وہ پھر ایجنٹس کے ذریعے آگے فروخت ہوتی ہے۔ اس کا حل یوں ممکن ہے کہ پہلے تو کچہری میں کسی بھی دستاویز کی فوٹو کاپی بنوانے سے گریز کیا جائے اور بہت ضروری ہو تو محتاط رہ کر فوٹو کاپی کروائی جائے اور جب فوٹو کاپی کروانی ہو تو اس پر لکھ دیں کہ یہ کاپی صرف اس متعلقہ غرض کے لیے ہی قابل استعمال ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ججز بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور ضمانتی مچلکے جمع ہونے کے وقت تصدیق لازمی ہونی چاہیے۔‘
اشفاق علی اس وقت مختلف عدالتوں میں پیش ہو کر اپنا نام کلیئر کروا رہے ہیں۔ انہوں نے عدالتی نظام چلانے والوں سے اپیل کی ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے اور خاص کر ان کے نام کو کلیئر کیا جائے۔

شیئر: