شوکت صاحب صاف گو ہیں، اساتذہ سے کہتے ہیں کہ آپ کی عزت میری بھی عزت ہے کیوں کہ میری کوئی عزت نہیں، وہ دوبنگلوں، دو کاروں اوردو بیویاں رکھناسماجی رُتبہ سمجھتے ہیں
** * * *رؤف خوشتر ۔بیجاپور* * * *
ہمارے مکان کے دائیں اور بائیں طرف والے پڑوسی عجیب ضرور ہیں پر غریب نہیں ہیں۔ اس لئے ان کو عجیب وغریب نہیں کہا جاسکتا ۔ چلئے ہم آپ کو ان عجیب الطرفین ہمسایوں کا تعارف کرواتے ہیں اور’’کِیپ لیفٹ‘‘کا لحاظ کرتے ہوئے پہلے اپنے بائیں والے پڑوسی صاحب کے متعلق بتلائیں گے۔ نام یوں توان کا شوکت ہے لیکن اپنی حرکتوں، کرتوتوں اوربالائی آمدنی کی وجہ سے شان وشوکت کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ بچپن میں تو ہر بچہ کھلونوں کے لئے ’’جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا ‘‘کا قائل اور مائل نظر آتا ہے پھر سماجی حالات و معاشرتی جبر سے گھائل، عمر کے ساتھ ساتھ بتدریج یہ جارحانہ رویہ ترک کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے لیکن شوکت صاحب اس معاملے میں استثنائی حیثیت رکھتے ہیں کہ یہ بچپن سے لے کر عالمِ شباب اور اب عالمِ خضاب میں بھی اسی جھپٹنا پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔جس کا ثبوت ان کی پھیلی ہوئی توند اور جائداد ہے۔ سونے کا معاملہ لیجئے۔
بچپن میں بچے زیادہ تر سوتے رہتے ہیں۔ پھر جوں جوں بڑے ہوتے ہیں تو اپنی جبری و عصری رات دن کی پڑھائی اور محلہ والوں کی دن رات کی لڑائی سے نیند کی پری ان سے روٹھ جاتی ہے اور پھر وہ مقام آتا ہے جب کہنا پڑتا ہے کہ’’ نیند سلانے والی گولی لینے اور نیند اُڑانے والی بیگم کے سونے‘‘ کے بعد بھی رات بھر نیند کیو ں نہیں آتی؟ نیند جو بڑی چو ر ہے کہ یہ ہماری اور آپ کی نصف زندگی خاموشی سے چُرا لیتی ہے لیکن ہمارے قائم اُلنوم پڑوسی یہاں بھی منفرد واقع ہوئے ہیں کہ نیند ان کی آدھی نہیں بلکہ خراٹے بھرتے ہوئے3 چوتھائی زندگی چُرالی ہے۔یوں سوتے اونگھتے ہوئے وہ قسطوں میں پہلے ’’بی اے‘‘ اور آخرِ کار’’ بی ا یڈ‘‘ ہوئے اور طلباء نہیں اساتذہ کو تختۂ مشق بنانے کے لئے محکمۂ تعلیم میں گھس گئے جبکہ روپیہ رجحان و مالی میلان والے مزاج کے اعتبار سے محکمہ ٔ پولیس ان کے لئے موزوں و مناسب تھا۔ بالا افسران کو دامے درمے سخنے خوش کرکے انسپکٹر آف ہائی اسکول مقرر ہوئے۔
یوں محکمۂ تدریس کے غیر تدریسی شعبے میں اس قدر کامیاب و مالا مال ہوئے کہ انسپکٹر آف پولیس کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔وہ ہائی اسکول کے معائنے سے پہلے ہی میر مدرس کو سمجھا دیتے کہ لفافہ جتنا بھاری ہوگا، اسکول کی سالانہ رپورٹ اُتنی ہی اطمینان بخش ہوگی۔ ظاہر ہے یہ رپورٹ کسی عالی شان ہوٹل میں بعد از طعام ہی لکھی جاتی ۔وہ سیر شکم ہوکر منظوم افسوس کرتے کہ :
مرغیاں مچھلیاں کو فتے تیتر بیٹر
کس کے گھر جائے گاسیلاب ِغذا
میرے بعد شوکت صاحب کی قابل ِرشک ہی نہیں ،قابل ِحسد صحت دیکھ کر لوگوں کو گُما ں ہوتا کہ یہ محکمۂ تعلیمات میں نہیں بلکہ زرخیز محکمۂ تعمیرات میں بر سرِ روز گار ہیں۔ ایک نگاہِ التفات بھاری لفافے پر ڈال کر اِس سے بھاری اپنے ڈیل ڈول کے ساتھ جب رُخصت ہونے لگے تب بیچارے اساتذہ ایک دوسرے سے مل کر بولے کہ’’ آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں۔‘‘ شوکت صاحب کی مُنافع بخش ومفید فارسی ’’ غربا کشتن روزِ اوّل روزِ دگر نیست‘‘ تک ہی محدود ہے۔ وہ اتنے صاف گوواقع ہوئے ہیں کہ اساتذہ سے کہتے ہیں کہ آپ کی عزت میری بھی عزت ہے کیوں کہ میرے پاس اپنی کوئی عزت نہیں ۔ وہ دوبنگلوں، دو کاروں کے ساتھ دو بیویاں رکھنے کو اپنا اسماجی رُتبہ سمجھتے ہیں۔
پہلی بیوی کے بچے اپنے طور پر پڑھ لکھ کر والد کے دیدہ و شُنیدہ کارناموں کی وجہ سے پسند یدگی سے نہیں شرمندگی سے’’ کیا کیا نہ سہے ہم نے ستم باپ کی خاطر‘‘ کہتے ہوئے دوسرے مُمالک کوچ کر گئے۔ بڑے صاحب زادے نے لندن کی سفید فام لڑکی سے شادی کر لی۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ادھر آتی ہے تو اُدھر شوکت صاحب کی جان نکل جاتی ہے۔ اس لئے کہ انگریز بہو کے پوچھے ہوئے صدفی صد انگریزی سوالات کا انگریزی میں ہی جواب دینا ہوتا ہے ۔ اب آئیے ہر معاملہ و میدان میں، شوکت صاحب کی ضد والے یعنی ہمارے دائیں بازو والے پڑوسی حنیف صاحب جوسُپری ٹنڈنٹ انجینیئر ہیں اور اس زمانے میں صرف اپنی تنخواہ پرقانع اور مقامِ حیرت یہ کہ خوش بھی ہیں، دفتر جاتے وقت کھانا مکان سے لے کر نکلتے ہیں اور شام اپنے گھر میں ہی کھانا کھاتے ہیں۔ اس سے آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ بالائی آمدنی کھانے کے کتنے سخت مخالف ہیں۔
اس پر ہیز کی وجہ سے لوگ انہیں حنیف نہیں نحیف کہتے ہیںاور ان کے ہلکے پھلکے جسم کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ محکمۂ تعمیرات میں نہیں بلکہ محکمۂ تعلیمات میں ہیں۔ اتنے زرخیز پوسٹ پر رہنے کے باوصف اپنی صاف ستھری اور بے داغ سروس کی بدولت ان کی زندگی ایک چھوٹے سے مکان، ایک بیوی بِن ٹی وی اور ایک چھوٹی بائیک سے عبارت ہے۔ یہ بائیک صرف سنڈے کو ہی ایکٹو رہتی ہے باقی دن آرام کرتی رہتی ہے۔ اِس لئے کہ یہ اکثر پیدل ہی چلتے ہیں اور اس کار از یوں طشت ازبام کرتے ہیں کہ:
جب بھی کھاتا ہوں پاؤں گایوں کے
راہ چلتے تھکن نہیں ہوتی
حنیف صاحب عام رُجحان کے بر خلاف انکم ٹیکس بھی دیانت داری سے ادا کرتے ہیں بلکہ انکم ٹیکس کا گوشوارہ پُر کرتے وقت قومی ترانہ نہایت خوشدلی سے پڑھتے ہیں۔ ایسے قومی ماحول میں جب ہر کوئی اپنے اچّھے دن لانے کے لئے ملک کو کسی نہ کسی طرح لوٹ رہا ہے، یہ ملک کو کچھ دے کر حب الوطنی کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔تو صاحبو ہم ایسے واقعی سرتاپا عجیب الطرفین پڑوسیوں کے درمیان سینڈوچ بنے اپنے آشیانے میں رہتے ہیں جس کا پچھواڑا بڑے اور کھلے صحن پر مشتمل ہے۔ لمبی تعطیلات کے آغاز کے ساتھ ہی ہمارے پوتے پوتیاں، نواسے اور نواسیاں اپنے اپنے ہاتھوں موبائل لئے چلے آتے ہیں ۔
ہمارے ان بے حد شرارتی مہمانوں کی سالانہ یلغار سے وہ دھماچوکڑی اور شور و غل ہوتا ہے کہ بہرے بھی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کردپائی دیتے ہیں کہ یہ جلد جائیں اور پھر نہ آئیں۔ان بچوں کے سعادت مند ماں باپ اپنا اور بچوں کا سامان لئے بعد میں پہنچ جاتے ہیں۔ویسے اب سعادت مندی ماں باپ کے حصے میں ہی آتی ہے۔ ہمارے داماد بڑے فرمانبردارہیں۔ویسے اب تو داماد ہی فرمانبردار ثابت ہورہے ہیں۔یوں تو ہمارے بیٹے بھی بڑ ے فرمانبردار ہیں لیکن صرف اپنے سسرال میں۔ ہمارے داماد نے ایک عملی لطیفہ کچھ یوں سنایا کہ جب وہ اور ان کی بیگم ریلوے اسٹیشن پہنچے تو ہماری بیٹی نے شوہر سے کہا ،اجی سنتے ہو! کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم پیا نو بھی اپنے ساتھ لے آتے۔
ہمارے داماد جو دوبھاری بھاری سوٹ کیس ٹیکسی سے اُتار کر ہانپتے ہوئے ریلوے پلیٹ فارم پر بمشکل پہنچے تھے، یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہوئے اور بیوی پر برس پڑے کہ یہ سامان کیا کم ہے جو آ پ کو پیا نو لانے کی سوجھی ۔ کیا میکے میں پیانو بجا کر سب کو بہرے بنانے کا پروگرام ہے؟نہیں جی پیانو اس لئے کہ میں ٹرین کے ٹکٹ پیانو پر ہی رکھ کر لانا بھول گئی۔ بس پھر کیا تھا داماد فوراً ٹیکسی پکڑ کر گھر گئے پیانو نہیں پیانو پر رکھے ہوئے ٹکٹ لئے اور اُسی ٹیکسی سے واپس آئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہمیشہ کی طرح ٹرین اُس دن بھی لیٹ تھی۔ پو توں اور نواسوں میں ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔
کوئی کرکٹ کھیلنا چاہتا ہے تو کوئی فٹ بال، کوئی گلی ڈنڈا تو کوئی والی بال۔ ایک دن ہم نے معمول سے زیادہ شور سنا تو دیکھا کہ نواسے، پوتے ،نواسیاں اور پوتیاں حلقہ بنائے کھڑے ہیںاور ہر کوئی سیاست دانوں کی طرح اپنی بات منوانے کے لئے زور زور سے شور کر رہا ہے۔ یہ سارے عقلمند ایک گدھے کو گھیرے ہوئے تھے اور وہ بیچارہ بے زبان عقل سے پیدل چپ چاپ کھڑاتھا یعنی ’’یک گونہ خاموشی تیرے جواب میں ‘‘والا معاملہ تھا۔ تبھی ہماری ایک دانشمند نواسی نے کہا کہ’’ نانا جان! ہم اپنے اس مہمان کے آگے کولا اور پانی سے بھرے ہوئے جگ رکھے تھے۔ جانتے ہیں اس نے کیا پیا؟ ‘‘ ہم نے فوراً کہا ’’پانی‘‘ بولی ’’ آپ نے کیسے جانا کہ اس نے کولا نہیں پیا ہوگا؟‘‘ ہم نے فوراً کہا ’’اس لئے کہ یہ گدھا ہے‘‘اس طرح شام سے رات ہوگئی۔ وائے حیرت کہ اگلے دن بھی یہ مہمان یعنی گدھا بدستور ہمارے صحن میں ٹہل رہا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ کتا ہی وفادار ہوتا ہے، لگتا ہے ہری ہری گھاس سے نکّما گدھا چو کنا ہوگیا او ر بچے اپنے اختلافات بھول کر اجتماعی طور پر اس کو گھاس کھلارہے تھے یعنی اس کا ناشتہ ڈٹ کر ہور ہا تھا اور یہ عقلمند اپنا نا شتہ تک بھول گئے تھے۔
ہم نے کہا کہ ’’ گدھو! تم سے تویہ گدھا ہوشیار ہے کہ یہ پہلے اپنے پیٹ کا سوچ رہا ہے اور یوں ابن صفی کے اس مصرعہ کی عملی طور پر تصدیق کر رہا ہے کہ: ’’اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں ‘‘ بدقت تمام بچوں اور بچیوں کو گدھے اور اس کی گھاس سے الگ کرکے اندر بلایا اور ناشتہ کروایا گیا۔دوپہرکو تمام بچے گدھے پر دھونس جمانے کے لئے اپنے اپنے کورس کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب لے آئے جس میں ادب ،سیاست، شاعری، ڈاکٹری، انجینیئرنگ، کمپیوٹر کی کتابوں کے اقتبا سات جلدی جلدی سنانے رہے تھے ۔اس لئے کہ ان کو ایسا خاموش اور صابر سامع پھر کہا ں نصیب ہونا تھا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں یہ ایسے ہی نہ غائب ہوجائے جیسے اس کے سر سے سینگ غائب ہو گئے تھے۔
وہ بیچارہ سب کی سن رہا تھا اور صرف سر ہلا رہا تھا۔ موٹی موٹی کتابوں کی موٹی موٹی باتیں سن کر گدھا سر ہلا رہا تھا۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ہمارا خادم اپنے کمرے سے بوسیدہ دھول میں اٹی ہوئی کتاب لے آیا تو ہم نے فوراً کہا کہ یقینا یہ اُردو کی کتاب ہوگی جو وہ اپنے طاق ِنسیاں میں رکھ کر بھو ل گیا تھا۔
اب گدھے نے اس عقلمند کو یا د لایا۔ وہ کتاب پر جمی ہوئی گرد اور مکڑی کے جالے صاف کررہا تھا۔ مکان کی ہر لحاظ سے صفائی کرتے کرتے اب یہ ماہرِ صفائی بالآخر کتاب بھی صاف کرنے میں کامیاب ہوااور گدھے کے پاس جاکر انگریزی کے شورِ ہجوم میں اُردو کی تنہا آواز کے ساتھ وہ کرشن چند ر کی تحریر کردہ ایک گدھے کی سرگُزشت سُنانے لگا کہ شاید رود اد سن کہ کرشن چندر کے ہیرو گدھے کی طرح یہ عصری گدھا بھی کچھ گل کھلائے گا۔ آج سعادت مند گدھے کا ہمارے دانش کدے کے صحن میں قیام کاتیسرا دن تھا۔
بچوں کے ساتھ وہ صبح کی دھوپ لے رہا تھا۔ پڑوسی خان صاحب کے پوتے جو بالکل اپنی انگریزی ماں پرگئے تھے، گدھے کے قریب کھڑے تھے ۔ اچانک ہی امن پسند اور بے ضرر گدھے نے اچانک ان گورے لڑکوں پر دولتی جھاڑ کر انہیں گرادیا۔وہ غصے سے آگ بگولہ ہوکر چلانے لگے کہ یہ گدھا رنگ و نسل کے تعصب کا شکار ہے جب کہ ہمارے لڑکے تالیاں بجارہے تھے اور شاباشی دے رہے تھے کہ اب گدھا بھی گوروں کو یہاں برداشت نہیں کررہا۔ کتنا محب الوطن ہے، اسے کوئی ایوارڈ ملنا چاہئے۔ اپنے بچوںکے رونے کی آواز سن کر حسب عادت فہیم صاحب بغیر اجازت ہمارے صحن میں کود پڑے۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھی تھی۔
وہ گدھے پروار کرنا ہی چاہتے تھے کہ ہمارے بچے بچیاں جو آپس میںلڑتے جھگڑتے تھے، سینہ سپر ہوکر گدھے کو گھیر ے ہوئے کھڑے تھے۔فہیم صاحب دھمکیاں دے کر چلے گئے کہ دیکھتا ہوں کل یہ گدھا یہاں کیسے رہتا ہے۔ ہماری کمزور آنکھوں نے یہ منظر دیکھا۔ ہمارے تیز کانوں نے یہ دھمکی سُنی ۔ اس کے باوجود گدھے کو مہمان بنا کر رکھنا اپنے گدھے پن کا ثبوت دیناتھا۔ عقلمندی کے تقاضے کے تحت ہم گدھے پر فہیم صاحب کو ترجیح دینے پر مجبور تھے کیونکہ ان کے ہاتھوں میں لاٹھی ہے۔ گدھے کے پاس کیا ہے ؟اس لئے ہو ش مندی سے اُس دھوبی سے، جو پچھلے دودنوں سے گدھے کوللچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، کہا کہ جب رات ڈھلے آنا کیونکہ’’خر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔‘‘