بیوروکریسی کی تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ، کیا کارکردگی بھی بہتر ہوگی؟
بیوروکریسی کی تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ، کیا کارکردگی بھی بہتر ہوگی؟
جمعرات 13 جون 2024 17:18
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
بجٹ دستاویز کے مطابق وفاقی بیوروکریسی کی تنخوہوں میں 20 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے (فوٹو:قومی اسمبلی ایکس اکاؤنٹ)
پاکستان کے وفاقی بجٹ میں جہاں تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے تو وہیں سرکاری ملازمین اور افسران کی تنخواہ میں بھی 25 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے گریڈ 1 سے 17 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اضافے کے فیصلے پر تو سب خوش نظر آتے ہیں۔
تاہم، 8500 ارب روپے کے خسارے والے بجٹ میں سرکاری بیوروکریسی یعنی گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ماہرین معیشت کے نزدیک حکومت کی ’شاہ خرچیاں‘ ہیں۔
پاکستان میں سرکاری ملکیتی ادارے پاکستان ریلویز، پی آئی اے اور بجلی تقسیم کار کمپنیاں مالی خسارے میں رہتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں بیوروکریسی کی کارکردگی ہمیشہ تنقید کی زد میں ہوتی ہے۔
دوسری جانب عوامی حلقوں میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا بیوروکریسی کی کارکردگی بھی اچھی ہو گی یا صرف ان کی تنخواہ ہی بڑھے گی؟
بجٹ میں بیوروکریسی کی تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ
گذشتہ روز پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی بجٹ دستاویز کے مطابق وفاقی بیوروکریسی کی تنخوہوں میں 20 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیر خزابہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ ’مہنگائی کی حالیہ لہر سے تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گریڈ 1 سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے 22 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد کا اضافہ کیا جائے۔‘
سابق وزیرمملکت اور چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف نے اُردو نیوز کو بتایا کہ حکومت نے دو سال میں سرکاری افسران کی تنخواہ میں تقریباً 68 فیصد تک کا اضافہ کیا ہے تاہم، سرکاراداروں کی ’کارگردگی پر کوئی چیک نہیں رکھا گیا۔‘
’تنخواہ میں اضافہ کارگردگی سے مشروط ہونا چاہیے‘
ہارون شریف نے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں اضافے کے طریقۂ کار پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں بیوروکریسی کی تنخواہ میں اضافہ اُن کی کارگردگی سے مشروط ہونا چاہیے نہ کہ ناقص کارگردگی پر بھی تنخواہ بڑھا دی جائے۔‘
بجٹ میں بیوروکریسی کی تنخوہوں میں اضافے کے معاملے پر انہوں نے بتایا کہ ’جب میں نے اس فیصلے کے پر ٹویٹ کیا تو خیبرپختونخوا کے سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے اپنے ردعمل میں لکھا کہ کیا وزیر خزانہ بطور صدر حبیب بنک بھی یہ فیصلہ کرتے؟ یعنی اگر آپ کا ادارہ خسارے میں ہو تو اخراجات بڑھائے نہیں کم کیے جاتے ہیں۔‘
ہارون شریف سمجھتے ہیں کہ اگر کسی ادارے کو مالی خسارے کا سامنا ہو اور وہ اضافی ٹیکس بھی لگا رہا ہو مگر اپنے اخراجات کم نہ کرے تو ایسے میں اُس کی خسارے سے نکلنے کی کوششیں غیر سنجیدہ سمجھی جاتی ہیں۔
’بیوروکریسی میں جدید دور کے ’چیلنجز‘سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں‘
ماہرِ معیشت ہارون شریف نے پاکستان کی بیوروکریسی کی کارکردگی کے حوالے سے کہا کہ ’ہمارے سرکاری افسران دور جدید کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہل نہیں ہیں اور آج بھی زمانۂ قدیم کے طریقۂ کار عمل پیرا ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ منتخب حکومتوں اس حوالے سے ایک پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی سمجھتے ہیں کہ ’حکومتی بجٹ خسارہ اضافی ٹیکس لگانے سے نہیں بلکہ اپنے اخراجات کم کرنے سے قابو میں آتا ہے۔‘
انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’سرکاری افسران کی تنخواہیں 20 فیصد بڑھانے کا شاید حکومتی اخراجات پر کوئی بڑا اثر نہ پڑے تاہم حکومت کو اخراجات کی کمی کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا لینا چاہیے۔‘
سابق وزیر مملکت اور ماہر معیشت اشفاق تولہ بیوروکرسی کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں حالیہ عرصہ کے دوران مہنگائی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت کا یہ فیصلہ سمجھ میں آتا ہے تاہم، اخراجات پر قابو پانے کے لیے بھی سرکاری سطح پر ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔