کانسٹیبل جمشید نے نہر میں ڈوبتی خاتون کو کیسے بچایا؟
کانسٹیبل جمشید نے نہر میں ڈوبتی خاتون کو کیسے بچایا؟
اتوار 23 جون 2024 7:01
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ڈکیتی کی وارداتوں کے بعد 15 پر کال کر کے شہریوں نے پولیس سے مدد طلب کی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
اس کو پولیس میں بھرتی ہوئے تقریباً پانچ برس ہو چکے تھے۔ لیکن اس کی زیادہ تر ڈیوٹی سکیورٹی مہیا کرنے پر رہتی تھی۔
اس مرتبہ اس کی ڈیوٹی شیخوپورہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں تھی۔ جون کے پہلے ہفتے میں ایک دن وہ ٹریننگ سینٹر سے اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر واپس جا رہا تھا۔ یہ ٹریننگ سینٹر قادر آباد بلوکی رابطہ نہر کے کنارے پر واقع ہے۔
کانسٹیبل جمشید پانچ جون کو بھی سینٹر سے نکل کر نہر کنارے کھڑا تھا جب نہر کے گہرے پانیوں میں ایک خاتون کو دیکھ کر وہ سکتے میں آ گیا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ ہلکے فیروزی رنگ کے کپڑوں میں ایک خاتون نہر کے اندر غوطے کھا رہی ہے۔ یہ بہت گہری نہر ہے اور میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے بہت ہی کم وقت تھا۔ اور پھر میں نے اللہ کا نام لے کر نہر میں چھلانگ لگا دی۔‘
’میں اس عورت تک پہنچ گیا جو ابھی تک زندہ تھی۔ لیکن اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ میں نے اس کنارے پر لا کر پہلے اس کے ہاتھ پاؤں کھولے۔‘
جس خاتون کی جان کانسٹیبل جمشید نے بچائی ان کا نام ثمینہ بی بی ہے اور وہ دو بچوں کی ماں ہیں۔
کانسٹیبل جمشید نے ان کی جان بچانے کے بعد قریبی تھانے میں اطلاع دی۔
پولیس کے سامنے ثمینہ نے جو بیان دیا وہ رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی تھا۔ تھانہ صدر فاروق آباد میں ان کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق ان کے شوہر عرصہ دراز سے انہیں خرچہ نہیں دے رہے تھے اور وہ ملازمت کے لیے مختلف لوگوں سے رابطے کر رہی تھیں۔
اس دوران ایک شخص نے نوکری کا جھانسہ دے کر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جب اس بات کا علم ان کے شوہر کو ہوا تو اپنے چھوٹی بھائی اور دیگر گھر والوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ثمینہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر نہر میں پھینک دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔
جب پولیس اہلکار نے آگ میں چھلانگ لگا دی
لاہور میں آئی جی آفس کے سامنے دوپہر کو شدید گرمی میں ایک شخص نے خود کو آگ لگا لی۔
ایلیٹ اہلکار حمید جو اس وقت دفتر کی سکیورٹی پر مامور تھے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور آگ میں جھلستے شخص پر چھلانگ لگا دی اور آگ بجھانے کی کوشش میں اسے گلے سے لگا لیا۔
پرانی انارکلی میں سینکڑوں لوگ اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ آگ تو بجھ گئی لیکن ایلیٹ فورس کا اہلکار حمید بھی بری طرح سے جھلس چکا تھا۔
جس شخص نے خود کو آگ لگائی، ان کا نام اصغر ہے اور وہ آئی جی صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ اس دن آئی جی صاحب دفتر تاخیر سے پہنچے تو انہوں نے دل برداشتہ ہو کر خود کو آگ لگا لی۔
میو ہسپتال میں زیرعلاج ایلیٹ اہلکار حمید بتاتے ہیں کہ ’میری اچانک نظر پڑی تو وہ شعلے اس شخص کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔ وہ پیٹرول تھا اس وجہ سے ایک سیکنڈ میں اس آگ پکڑ لی تھی۔ اندر جا کر پانی لانے کا وقت نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ اگر آگ پر یہیں پر قابو پا لیا جائے تو شاید اس کی جان بچ جائے۔ پھر میں نے فیصلہ کیا اور چھلانگ لگا دی۔‘
حمید کی بہادری سے وقتی طور پر تو اصغر کی جان بچ گئی لیکن پانچ روز کے بعد چھ جون کو وہ ہسپتال میں ہی اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ حمید بھی میو ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
چار لاکھ کی ڈکیتی اور پولیس کا کوئیک ریسپانس
پولیس سے جو سب سے زیادہ شکوہ عوام کو رہتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ وقت پر نہیں پہنچتی۔ لیکن ایسا ہر بار نہیں بھی ہوتا۔ بعض اوقات اچھے اور فرض شناس پولیس افسران معاملات کو فوری حل کرنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
لاہور کے علاقے رائیونڈ میں گزشتہ ماہ ایک بزرگ کے ساتھ راہ چلتے ہوئے ڈکیتی ہو گئی۔ شہری محمد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں بینک سے چار لاکھ روپے لے کر نکلا تھا اور میں نے پہلے اڈہ پلاٹ میں ایک ہوٹل میں کھانا کھایا اور اس کے بعد اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا لیکن بائی پاس کے قریب دو نقاب پوش موٹرسائیکل سواروں نے مجھے گن پوائنٹ پر روک لیا۔ اور میرے پیسے لوٹ لیے۔‘
نقاب پوش ڈاکو پیسے اور موبائل لے کر فرار ہو گئے لیکن بزرگ شہری نے قریبی آبادی سے فوری طور پر 15 پر فون کر دیا۔ ان کی توقع کے برعکس پولیس نے کچھ زیادہ ہی سرعت کا مظاہرہ کیا۔ وہ کہتے ہیں ’میرا بالکل بھی خیال نہیں تھا کہ پولیس ایسے فالو اپ کرے گی۔ اس واقعے کے 24 گھنٹے میں انہوں نے دونوں ڈاکوؤں کو ڈھونڈ نکالا۔‘
ایس پی صدر ڈاکٹر غیور احمد خان بتاتے ہیں کہ ’جیسے ہی وائرلیس کی کال چلی تو میرے پاس بھی اطلاع آئی تو ہم نے اسی وقت تھانہ رائیونڈ کو چوکس رہنے اور اس علاقے میں سیف سٹی اور دیگر کیمروں اور لوکیشنز کے ذریعے ملزمان کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اور بہت جلد ہمارے تفتیش کاروں کو سراغ ملنے لگے اور پھر ہم ان ملزمان تک پہنچ گئے۔ ان میں ایک اس بزرگ کا داماد تھا جس نے اپنے سسر سے ڈکیتی کا منصوبہ بنایا تھا۔‘
جب 65 سالہ دادی تین سالہ پوتی سمیت نہر میں کود گئی
گزشتہ ماہ میں سیالکوٹ کے ہیڈ مرالہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ تھانہ ہیڈ مرالہ کے ایس ایچ او کاشف بٹ بتاتے ہیں کہ ایک 65 سالہ خاتون نے اچانک اپنی تین سالہ بچی سمیت ہیڈ میں چھلانگ لگا دی۔
’ہماری چوکی بھی قریب تھی۔ اس وقت چوکی پر اے ایس آئی امجد خان تھے۔ جیسے ان تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے فوراً نہر میں چھلانگ لگا دی اور دونوں دادی پوتی کو بچا لیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ ایک گھریلو جھگڑا تھا اور ماں اپنے بیٹے اور بہو سے سخت ناخوش تھیں۔ اس لیے انہوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ ان کے بچائے جانے کے بعد کی صورت حال مزید پیچیدہ تھی۔ لیکن پولیس نے اپنے طور پر کوشش کی کہ اس خاندان کا جھگڑا ختم ہو۔‘
موبائل فون ٹاور سے خودکشی کی کوشش
راولپنڈی کے ایئرپورٹ کے علاقے میں گزشتہ رمضان میں اچانک 15 پر ایک کال چلی کہ ایک خاتوں موبائل فون سگنل کے ٹاور پر چڑھ گئی ہے اور وہ خودکشی کر رہی ہے۔
گلنار نامی خاتون کی عمر 40 برس کے لگ بھگ تھی اور وہ 100 فٹ سے بھی اونچے ٹاور پر کھڑی تھیں جبکہ نیچے لوگوں کا جم غفیر تھا۔ کال کو ریسپانڈ کرتے ہوئے ایئرپورٹ چوکی انچارج اپنی نفری سمیت وہاں پہنچ گئے۔
خاتون کو نیچے لانے کی کوشش کی گئی لیکن ٹاور اونچا ہونے کی وجہ سے بات ٹھیک طرح سے نہیں ہو پا رہی تو کانسٹیبل غلام شبیر کو کہا گیا کہ وہ بھی ٹاور پر چڑھ جائے۔
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے غلام شبیر کا کہنا تھا کہ ’میرا بھی روزہ تھا لیکن اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں تھا۔ اس لیے میں نے ٹاور پر چڑھنا شروع کر دیا۔ ٹاور کافی اونچا تھا اور خاتون ٹاور کے ٹاپ پر تھی اور کسی بھی لمحے چھلانگ لگا سکتی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچ گیا اور اس سے بات چیت کا آغاز کر دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وہ مجھے دھمکی لگا رہی تھی کہ اگر مزید اس کے قریب گیا تو چھلانگ لگا دے گی۔ تاہم میں نے اس سے بات چیت کی کوشش ترک نہ کی تو وہ آہستہ آہستہ بات کرنے کے قابل ہو گئی اور اس نے بتایا کہ اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہے اور بھائی کا رویہ بھی اب ٹھیک نہیں ہے۔ اب وہ مر جانا چاہتی ہے۔‘
غلام شبیر کہتے ہیں کہ ’اس کی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ باتوں سے نہیں مانے گی۔ پھر میں نے بہت بڑا رسک لینے کا فیصلہ کیا اور میں بھی ٹاور کی ٹاپ پر پہنچ گیا اور اسے ایک بار پھر باتوں میں لگا کر اس کے پاؤں قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اسی کے دوپٹے سے اس کے کے ہاتھ باندھ دیے۔ اس دوران دو مرتبہ میرا توازن بھی خراب ہوا لیکن میں اس کو بچانے میں کامیاب ہو گیا۔‘
اس واقعے پر آئی جی پنجاب نے غلام شبیر کو تعریفی سند بھی جاری کی۔