Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوسٹیل تصدیق، اوورسیز ایجنٹ مافیا سے کیسے بچیں؟

دفتر خارجہ اور دیگر اداروں سے تصدیق کرائی گئی دستاویزات کی میعاد چھ ماہ تک ہوتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
عبدالرزاق کا تعلق پنجاب کے ضلع گجرات سے ہے اور وہ گذشتہ 20 سال سے سپین میں مقیم ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کو سپین بلانے کے لیے ان کی دستاویزات کی تیاری پر نہ صرف بے پناہ پیسہ لگانا پڑا بلکہ ان کا بہت سارا وقت بھی ضائع ہو گیا تھا جس کے بعد کہیں جا کر ان کے کاغذات تیار ہوئے اور وہ انہیں سپین لے جانے میں کامیاب ہو سکے۔
بچوں کی شادیوں کے بعد اب انہیں اپنی بہو اور داماد کو سپین لے کر جانا ہے تو ان کو مقامی دفاتر اور سفارت خانے کی طویل قطاروں میں نہیں لگنا پڑا گا بلکہ پاکستان میں اپوسٹیل سروسز کے آغاز کے باعث ان کے تمام کاغذات کی ایک ہی چھت تلے تصدیق ہو سکتی ہے۔
عالمی سطح پر کیے گئے وعدوں کے برعکس پاکستان میں اگرچہ اپوسٹیل خدمات یا تصدیق کا آغاز تاخیر سے ہوا ہے اوریہ عمل فی الحال دفتر خارجہ کے قونصلر سیکشن میں ہی کیا جا رہا ہے تاہم اس کے لیے ضلع اور تحصیل کی سطح پر سہولت فراہم کرنا بھی منصوبے کا حصہ ہے۔
دفتر خارجہ اس وقت 105 سے زیادہ ممالک کے لیے دستاویزات کی تصدیق کے عمل کے بعد اپوسٹیل سرٹفیکیٹ کا اجرا کر رہا ہے۔
اپوسٹیل تصدیق کیسے کروائی جا سکتی ہے؟
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی شہری دستاویزات کی اپوسٹیل تصدیق کے لیے آن لائن اپائنٹمنٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ اپائنٹمنٹ اس لنک کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے: https://apostille.mofa.gov.pk/book-appointment  درخواست گزار مقررہ تاریخ اور وقت پر دفتر خارجہ کے قونصلر سیکشن  پہنچ کر کاغذات کی اصل اور نقول متعلقہ کاؤنٹر پر دکھا کر فیس چالان حاصل کرتے ہیں اور فیس جمع کرواتے ہیں۔
فیس کی ادائیگی کے بعد قونصلر سیکشن میں ٹوکن پر باری آنے کے بعد عملہ دستاویزات دیکھتا ہے اور درست ہونے کی صورت میں انہیں سکین کر کے اپوسٹیل اتھارٹی کو بھجوا دیتا ہے۔ متعلقہ اتھارٹی کچھ ہی دیر بعد کاغذات کی تصدیق کرکے واپس بھجوا دیتی ہے۔ پرنٹ سیکشن اپوسٹل سرٹیفکیٹ پرنٹ کرکے دستاویزات کے ساتھ شہری کو واپس کر دیتا ہے۔
کوئی شہری اگر یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کو فراہم کیا گیا اپوسٹیل سرٹیفکیٹ اصلی ہے یا اس میں جعل سازی کی گئی ہے تو  وہ اپنے اپوسٹیل سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے لیے https://apostille.mofa.gov.pk/verify-attestation اس لنک پر نمبر کا اندراج کرکے تصدیق کر سکتا ہے۔

تعلیمی اسناد کی تصدیق پہلے ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ (فوٹو: را پکس)

اپوسٹیل کیا ہے؟
عام طور پر ممالک ایک دوسرے کی سرکاری دستاویزات کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے اس لیے کسی بھی قسم کے ویزے اور دیگر امور کے لیے درکار دستاویزات کی تصدیق ضروری ہوتی ہے۔ یہ تصدیق ایک خاص ترتیب سے ہوتی ہے تاکہ کوئی بھی جعلی دستاویز کی تصدیق نہ کروا سکے۔ اسی لیے یہ عمل دستاویز جاری کرنے کے عمل سے شروع ہو کر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اس ملک کے سفارت خانے تک جاتا ہے جہاں کا ویزہ مطلوب ہوتا ہے۔ 
اس سے جعل سازوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن اس عمل میں وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی طالب علم نے اپنی دو سندوں اور دو ڈگریوں کی تصدیق کرانی ہو تو اسے متعلقہ بورڈ، آئی بی سی سی اور ایچ ای سی سے تصدیقی عمل کے لیے کم از کم 16 سے 20 ہزار روپے بطور فیس ادا کرنے ہوں گے۔ سفری اخراجات اور سفارت خانے سے تصدیق کی صورت میں فیس اس کے علاوہ ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ 
اس سارے عمل کو آسان بنانے کے لیے 1961 میں  ہیگ کانفرنس آن پرائیویٹ انٹرنیشنل لا کے دوران ایک کنونشن پر دستخط کیے گئے جس کا مقصد دستاویزات کی تصدیق کے عمل کو آسان بنانے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ اپوسٹیل کے تحت رکن ملک اپنے ملک کے اندر ایک اتھارٹی مقرر کر دیتا ہے جو تمام سرکاری دستاویزات کی تصدیق کرتی ہے اور یہ تصدیق تمام رکن ممالک میں قابل قبول ہوتی ہے۔ 
عام طور پر جب بھی کسی اوورسیز پاکستانی کو اپنے ملک سے کسی قسم کی سرکاری دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنے خاندان کے افراد کو یہ ذمہ داری سونپتے ہیں کہ متعلقہ دستاویزات کے حصول کے بعد مقامی دفاتر، دفتر خارجہ اور متعلقہ ملک کے سفارت خانے سے اس کی تصدیق  کروائیں۔
اس کے لیے بعض صورتوں میں وہ مختار نامہ بھی بنا کر بھیجتے ہیں اور تمام دستاویزات کا عموماً اس ملک کی اپنی زبان میں ترجمہ بھی کرانا پڑتا ہے جس میں غلطیوں کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے نہ صرف پیسے ضائع ہوتے ہیں بلکہ بار بار ایک ہی عمل کو دہرانا بھی پڑتا ہے۔ اپوسٹیل سے الحاق کے بعد دستاویز کو ترجمہ کروانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اپوسٹیل کاغذات کی تصدیق کرتے ہوئے ایک تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ جس میں تصدیق کی جائے گی کہ متعلقہ دستاویز کس دفتر سے کسی افسر نے کس حیثیت میں جاری کی اور اس پر کس عہدیدار کی مہر ثبت ہے۔ 
دفتر خارجہ اور دیگر اداروں سے تصدیق کرائی گئی دستاویزات کی میعاد چھ ماہ تک ہوتی ہے۔ اگر چھ ماہ کے اندر ان دستاویزات کو استعمال میں نہ لایا جائے تو نئے سرے سے تصدیق کرانا پڑتی ہے۔ اپوسٹیل کنونشن کے تحت متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے سرٹیفکیٹ کی میعاد ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔ تاہم اگر کسی دستاویز کے اوپر ختم ہونے کی میعاد درج ہو تو اس کو نئے سرے سے جاری کروا کر اپوسٹیل تصدیق کروانا ہو گی۔

بیرون ملک جانے والے پاکستانی شہریوں کے لیے مختلف تصدیق شدہ اسناد کی ضرورت ہوتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اپوسٹیل کے لیے فیس کتنی ہے؟
دفتر خارجہ کے مطابق ذاتی، تعلیمی اور تجربے کے سرٹیفکیٹس کی تصدیق کی فیس 500 فی کس ہے۔ قانونی دستاویزات کی تصدیق کے لیے 700 روپے جبکہ کمرشل دستاویزات کی تصدیق کے لیے 3000 روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔ اپوسٹیل کے ذریعے جن دستاویزات کی تصدیق کی جا رہی ہے اس کی تفصیل اس لنک https://apostille.mofa.gov.pk/list-of-public-documents  پر موجود ہے۔   
اپوسٹیل کا نظام اور ایجنٹ مافیا
دوسری جانب یہ معلوم ہوا ہے کہ اپوسٹیل خدمات کے آغاز کے ساتھ ہی ایجنٹ مافیا بھی سرگرم ہو گیا ہے۔ اپوسٹل کے لیے جوں ہی پورٹل کھلتا ہے تو ایجنٹ مافیا اگلے کئی کئی ہفتوں کے لیے اپائنٹمنٹ بک کر لیتا ہے اور بعد ازاں جب لوگوں کو اپائنٹمنٹ نہیں ملتی تو انھیں یہ اپائنٹمنٹ فروخت کی جاتی ہیں۔
سپین میں مقیم عبدالرزاق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’انہوں نے جب اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش کی تو انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو کسی نے ان کا ایک ایجنٹ سے رابطہ کروایا جس کے بعد انہوں نے ایک ہفتے بعد کی اپائنٹمنٹ کے لیے 35 ہزار روپے وصول کیے۔

شہری ایجنٹ کے بجائے گھر کے کسی فرد سے آن لائن اپائنٹمنٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ (فوٹو: پِک پِک)

اس طرح اٹلی میں مقیم ذیشان پراچہ نے بتایا کہ ’انہیں اپنی اہلیہ کے تعلیمی سرٹیفکیٹس کے لیے ایک ہفتے میں اپوسٹیل سرٹیفیکیٹ درکار تھا لیکن اپاائنٹمنٹ نہیں مل رہی تھی۔ بعد ازاں ایجنٹ کو 25 ہزار روپے دے کر اپائنٹمنٹ لی اور اپوسٹیل سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔‘
اس حوالے سے دفتر خارجہ کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’دفتر خارجہ کی حدود میں ایجنٹس کو داخلے کی اجازت نہیں۔ شہریوں کو اگر اپاائنٹمنٹ کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں تو وہ بذریعہ ای میل رابطہ کر سکتے ہیں اور ایجنٹس کی نشاندہی بھی کر سکتے ہیں جن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’اپائنٹمنٹ دستاویزات پر موجود نام پر کی جاتی ہے اور اس کے لیے آن لائن فارم فل کرنا ہوتا ہے اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کوئی اپائنٹمنٹ خود لے کر اس کو آگے کسی اور کو فروخت کر دے البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ کوئی ایجنٹ دستاویزات منگوا کر خود بکنگ کرے اور اس عمل کے بدلے میں وہ عام شہریوں سے پیسے لے رہا ہو۔ شہریوں کو چاہیے کہ وہ خود یا گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے آن لائن اپائنٹمنٹ حاصل کریں۔

شیئر: