بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے اقدامات ناکافی قرار، ’حل کے لیے اداروں میں بہتری لائی جائے‘
بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے اقدامات ناکافی قرار، ’حل کے لیے اداروں میں بہتری لائی جائے‘
منگل 18 جون 2024 19:29
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیا تھا۔ (فوٹو: وزارت خزانہ)
اوورسیز پاکستانیوں نے بجٹ 25-2024 میں کیے گئے اعلانات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اداروں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے بجٹ 2024-25 میں 86 ارب 90 کروڑ روپے کی رقم مختص کرتے ہوئے ان کی شکایات کے ازالے کے لیے بین الاقوامی کال سینٹر بنانے، اور زیادہ ترسیلات زر بھینجنے والوں کو ’محسن پاکستان‘ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
انہوں نے بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مراعات اور ان کے مسائل کے حل کے لیے موثر نظام بنانے کا اعلان کیا، لیکن بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں کے حوالے سے تنازعات اور مقدمات کے فیصلے کرنے کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی۔
اس حوالے سے اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے اگرچہ کوئی نئی سکیم متعارف نہیں کرائی گئی بلکہ پرانے منصوبوں کے نام دہرائے گئے ہیں۔ تاہم پاکستان میں رہنے والوں کو بیرون ملک بھجوانے کے حوالے سے کافی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔
مانچسٹر میں مقیم اوورسیز پاکستانی محمود اصغر چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حالیہ بجٹ میں جو سکیمیں ہیں وہ اکثر و بیشتر ارب پتی اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ہوتی ہیں لیکن اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل تو پاکستان کے اداروں سے ہیں۔ ان کے مسائل اغوا برائے تاوان سے لے کر جائیدادوں پر قبضے اور ان کے مقدمات کے تیز تر ٹرائل کے حوالے سے ہیں۔ ان کے لیے حکومت نے ایک کال سینٹر بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ اس کے لیے دیگر اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ پنجاب اوورسیز کمیشن جیسے ادارے بنانے اور او پی ایف میں اوورسیز پاکستانیوں کو شامل کرنے کی ضرورت تھی جسے مقامی بیوروکریسی کے حوالے کر دیا گیا ہے، لیکن اس حوالے سے حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آئی۔
محمود اصغر چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف حکومت میں مراعات کا اعلان کرتی ہے تو دوسری جانب مشکلات سے گزر کر بیرون ملک پہنچنے والوں کو پاسپورٹ دینے سے انکار کر رہی ہے، اور اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کیے جا رہے ہیں۔ اس دہرے معیار کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
32 سال سے پیرس میں مقیم اوورسیز پاکستانی عتیق الرحمان نے کہا ہے کہ میں نے فرانس سے کما کر گجرات میں رائس مل لگائی جو ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے تین سال سے بند ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ہم عام اوورسیز پاکستانی اپنے ملک پہنچتے ہیں تو ہمارے ساتھ تیسرے درجے کے شہری کا سلوک ہوتا ہے لیکن دوسری جانب وہ لوگ جو یورپی ممالک میں سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے میزبان بنتے ہیں ان کو ایئرپورٹس پر بھی وی آئی پی پروٹوکول ہے۔‘
’میں 10 سال سے اپنی ایک زمین کا کیس لڑ رہا ہوں لیکن سست عدالتی نظام کی وجہ سے مجھے انصاف نہیں ملا۔ بلکہ جب بھی مقامی اداروں میں کسی کو پتہ چلتا ہے کہ یہ بیرون ملک سے آیا ہے تو وہ مال بٹورنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان میں مزید سرمایہ کاری سے ہچکچاتے ہیں۔ اگر یہ مسائل حال ہو جائیں تو اوورسیز پاکستانی بیرون ملک سے اپنی جائیدادیں بیچ کر بھی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔‘
ایک اور اوورسیز پاکستانی سردار ظہور نے کہا کہ حکومتیں اعلانات تو کرتی ہیں لیکن جب بھی اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے ملک کا رخ کیا اور وہاں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کی وہ دھکے کھا کر ہی واپس آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی ہے اور ہمارا وفد جولائی میں پاکستان آئے گا جو سرمایہ کاری کے لیے اقدامات کا جائزہ لے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے وطن کے لیے کچھ کریں لیکن اس کے لیے مقامی اداروں کو اپنا کردار بہتر کرنا ہو گا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے سرمائے کو تحفظ دینا ہو گا اور اس حوالے سے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔