Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیکس کے بدلے بنیادی ضروریات، حکومت تنخواہ دار طبقے کو مایوس کیوں کر رہی ہے؟

شہری سمجھتے ہیں کہ ریاست اُنہیں ٹیکس کے بدلے میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکومت پاکستان نے حالیہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ایک مرتبہ پھر ٹیکس بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں ملازمت پیشہ افراد سراپا احتجاج ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ حکومت اُن سے ٹیکس لے کر بدلے میں کون سی سہولیات فراہم کرتی ہے؟
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹیکس نظام اس بنیادی اُصول پر رائج ہے کہ شہری حکومت کو اپنی آمدن سے کچھ حصہ نظام مملکت چلانے کے لیے فراہم کریں گے جس کے بدلے میں حکومت شہریوں کو صحت، تعلیم اور سکیورٹی جیسی بنیادی سہولیات اور دیگر ضروریات فراہم کرے گی۔
پاکستان میں اگرچہ تنخواہ دار طبقے پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اور دیگر شہریوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ روز بروز بڑھ رہا ہے جبکہ بنیادی سہولیات اس تناسب سے فراہم نہیں کی جا رہیں۔
تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات یا تو ایک بڑے طبقے کو میسر نہیں ہیں یا پھر اتنی اچھی نہیں ہیں کہ شہری ان پر اعتماد کر سکیں اور زیادہ تر لوگ نجی سکولوں اور ہسپتالوں سے خطیر رقم کے بدلے یہ سہولیات حاصل کرتے ہیں۔
اسی طرح امن و امان کی صورت حال بھی مخدوش ہے اور پاکستانی شہریوں کو ہر وقت لُوٹ مار، قتل و غارت یا دہشت گردی کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ 
اسی وجہ سے زیادہ تر شہری یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ریاست اُنہیں ٹیکس کے بدلے میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
کیا پاکستان کے مقابلے میں دیگر ممالک ٹیکس کے بدلے بہتر سہولیات فراہم کرتے ہیں؟
پاکستان کے ساتھ ہی برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والا پڑوسی ملک انڈیا ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ہر سال صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث بڑی تعداد میں شہری ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق انڈیا میں روزانہ ایک ہزار 600 افراد ہیضے، اسہال اور آنتوں کی سوزش کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں، جن میں بڑی تعداد پانچ سال سے چھوٹی عمر کے بچوں کی ہے۔
یہ بچے زیادہ تر ان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں پینے کا پانی نہیں ملتا، مشکل سے ملتا ہے، یا ملنے والا پانی صاف نہیں ہوتا۔
انڈیا کا آئین ریاست کو ہر شہری کی روزانہ کی ضروریات کے مطابق پانی فراہم کرنے کا پابند بناتا ہے۔
تاہم جنوبی ایشیا اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح انڈیا میں بھی انتظامیہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات مکمل طور پر پُوری کرنے میں ناکام ہے۔

مہتاب حیدر کے خیال میں ’حکومت ٹیکس کا جواز فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا نام استعمال کر رہی ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

البتہ انڈیا کے بعض شہر ایسے بھی ہیں جہاں انتظامیہ نے اس بات کا احساس کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں بالخصوص ٹیکس دہندگان کو صاف پانی فراہم کرے۔
ممبئی، حیدرآباد اور چنئی میں حکومت وسائل کے بندوبست کا نظام موثر بنا کر ٹیکس دہندگان اور دیگر افراد کے لیے پانی کی ترسیل بہتر بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ممبئی میں انتظامیہ نے شہریوں کے ٹیکس کی رقم پانی کی فراہمی کے نظام پر خرچ کر کے اور اسے شفاف بنا کر کسی قدر کامیابی حاصل کی ہے۔
اسی طرح ایک اور بڑے انڈین شہر حیدرآباد میں انتظامیہ نے واٹر سپلائی اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام کو وسعت دے کر یہ ہدف حاصل کیا۔
چنئی میں پانی کی ترسیل کے مقامی محکمے نے اکٹھا کیا گیا ٹیکس نجی شعبے کے تعاون سے شہریوں تک پینے کے صاف پانی پر خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
ٹیکس کی رقم واٹر ٹینکر کے نظام کو بہتر بنانے اور بارش کے پانی کو جمع کر کے زیرِ زمین آبی ذخائر میں اضافے پر خرچ کر کے صاف پانی کو بیشتر افراد تک پہنچانے کا بندوبست کیا گیا۔
’انڈیا میں سب سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں‘
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی یہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا میں ریاستی مشینری کافی حد تک شہریوں کو ان کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
’انڈیا میں سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا نظام بہت اچھا ہے۔ وہاں ہر کوئی سرکاری سکول میں پڑھتا ہے کیونکہ وہاں تعلیم کا معیار بہتر ہے اور لوگوں کو اس پر اعتماد ہے۔‘

 ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی ریاست نے طے کر لیا ہے کہ خدمات فراہم کرنا نجی شعبے کی ذمہ داری ہے‘ (فائل فوٹو: ڈبلیو ایچ او)

 ڈاکٹر قیصر بنگالی کا مزید کہنا ہے کہ ’اسی طرح وہاں نجی ہسپتال موجود تو ہیں لیکن سرکاری شفاخانوں میں بھی صحت کا نظام بہت اچھا ہے اور لوگ وہاں سے علاج کرواتے ہیں۔‘ 
’پاکستانی ریاست نے طے کر لیا کہ خدمات نجی شعبے کی ذمہ داری ہیں‘
’انڈیا نے پاکستان کے برعکس نیو لبرل فلاسفی کو بہت محدود سطح پر اپنایا ہے اور وہاں پر نجی شعبہ بہت کم ہے، وہ بھی حکومت کی سخت ریگولیشن میں کام کرتا ہے۔ 
دوسری جانب پاکستان میں نیو لبرل فلاسفی کو مکمل طور پر اپنا لیا گیا ہے اور ریاست نے طے کر لیا ہے کہ خدمات فراہم کرنا نجی شعبے کا کام ہے۔
پاکستان میں ٹیکس امور پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انڈیا وہ تمام سہولیات ٹیکس دہندگان کو فراہم کر رہا ہے جو کہ ایک ذمہ دار ریاست کو اپنے شہریوں کو دینی چاہییں لیکن اس کے باوجود وہاں پر عوامی خدمات اور ٹیکس کا نظام بہتر ہے۔
’پاکستان میں لوگ ٹیکس اس لیے نہیں دیتے کیونکہ انہیں اس نظام پر اعتماد نہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بدلے انہیں مطلوبہ بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، تاہم انڈیا میں نظام بہتر ہے اور وہاں معاشرے میں انکم ٹیکس افسر کا ایک خوف موجود ہے۔‘
مہتاب حیدر کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا میں ٹیکس دہندگان کو سہولیات کی فراہمی کے لیے پارلیمنٹیرینز بھی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ اُن کی ٹیکس کے نظام میں نمائندگی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں عوامی نمائندوں اور عوام کے درمیان ایک بہت بڑا خلا موجود ہے جس کی وجہ اشرافیہ اور عوام کے لیے نظام مختلف ہے۔ 

’انڈیا میں ہر کوئی سرکاری سکول میں پڑھتا ہے کیونکہ وہاں تعلیم کا معیار بہتر ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ ہی ٹیکس کا ہدف کیوں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مہتاب حیدر نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ صوبوں اور مرکز کے ٹیکس نظام میں تضاد اور حکومت کی اشرافیہ نوازی ہے۔
’پاکستان میں بہت سے طبقات جیسے بیرون ملک سے زرمبادلہ حاصل کرنے والے، ارکان پارلیمنٹ، بیوروکریسی، افواج پاکستان اور زراعت کے شعبوں کو ٹیکس سے استثنٰی حاصل ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ ملبہ تنخواہ دار طبقے پر گرتا ہے اور ان پر ٹیکس میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس کی ایک اور بڑی وجہ ٹیکس نظام میں خامی ہے۔ صوبوں اور مرکز کے ٹیکس نظام میں تضاد ہے جیسا کہ اشیا پر ٹیکس مرکز جبکہ خدمات پر صوبوں کا اختیار ہے، حالانکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے۔ اسی طرح زراعت کا شعبہ بھی صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔‘
ڈاکٹر قیصر بنگالی بھی کچھ ایسی ہی بات کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی بڑی وجہ پاکستان کی معاشی پالیسی اور آئی ایم ایف کی پاکستان سے متعلق پالیسی ہے۔ یہ دونوں مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کا تحفظ کرتے ہیں۔‘
پاکستان میں ٹیکس دہندگان میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا؟
پاکستان میں آنے والی تقریباً ہر نئی حکومت ٹیکس دہندگان میں اضافے اور پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں پر بوجھ کم کرنے کا وعدہ کرتی ہے لیکن ہر اس میں ناکام رہتی ہے۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ’ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی بھی ناگزیر ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ لوگ ٹیکس نظام سے دُور بھاگتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے کچھ بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایک مرتبہ اس نظام میں آگئے تو پھر اُن کی جان نہیں چُھوٹے گی اور ٹیکس بڑھتا چلا جائے گا۔
’دو سال پہلے پاکستان میں 36 لاکھ افراد نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے جن میں سے تقریباً 20 لاکھ نے ٹیکس نہیں دیا۔ اب 50 لاکھ شہریوں نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں جن میں سے 25 لاکھ نے ٹیکس نہیں دیا۔‘
مہتاب حیدر کے مطابق ’گذشتہ 25 سال میں تمام حکمرانوں نے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنے کے اعلانات تو کیے، تاہم اس میں موجودہ حکومت سمیت کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ یہ ان کی بڑی ترجیح نہیں بن سکی۔‘
سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں فوج کی پروردہ حکومت تھی جنہوں نے یونیورسل سیلف اسیسمنٹ سکیم شروع کی تھی۔
ان دنوں بین الاقوامی حالات کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی ریل پیل شروع ہو گئی اس لیے حکومت کو ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور اس پر زیادہ کام نہیں کیا گیا۔
’اس کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں آئی ایم ایف پروگرام آدھی مدت میں ہی ختم کرنا پڑا کیونکہ حکومت کی ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی تمام سکیمیں ناکام ہو گئیں۔
 اس کے بعد نواز شریف کی حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں بہت زیادہ مُراعات حاصل ہو گئیں جس کی وجہ سے حکومت غیر سنجیدہ رہی۔

ماہرین کے مطابق ’پیپلز پارٹی کی حکومت میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی تمام سکیمیں ناکام ہوئیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کی حکومت میں بھی سیاسی دباؤ کے تحت پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں کمی کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام منسوخ ہو گیا جس وجہ سے اصلاحات بھی معطل ہو گئیں۔‘
مہتاب حیدر نے بتایا کہ پی ڈی ایم کے پہلے دور حکومت میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی برطرفی اور اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں تاخیر کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں کا نظام بھی ناکامی کا شکار رہا۔
’شرح پیداوار کے مقابلے میں ٹیکس بھی سُکڑا ہے۔ 2010 میں وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کو 10 سے 15 فیصد پر لے کر جائیں گے جبکہ یہ بڑھنے کے بجائے کم ہو گیا اور اس وقت 8.6 فیصد ہے۔‘  
’نظام میں وسعت کی گنجائش نہیں‘
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ٹیکس نظام میں اضافے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ کاروباری طبقہ بہت چھوٹا ہے۔
’وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں معاشی نظام تنگ ہے۔ جتنا ٹیکس بڑھتا ہے اتنے ہی کاروبار بند ہو جاتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
مہتاب حیدر کے خیال میں پاکستان کی معیشت کو درست سمت میں لانے کے لیے ٹیکس نظام کی اوورہالنگ اور اس کو منصفانہ بنیادوں پر ترتیب دے کر اشرافیہ اور عام افراد میں برقرار فرق کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔
’اس وقت آئی ایم ایف بھی اصلاحات سے زیادہ صرف پیسے اکٹھے کرنے پر زور دے رہا ہے اور حکومت اشرافیہ کو بچانے اور عوام پر لگائے گئے ٹیکس کا جواز فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا نام استعمال کر رہی ہے۔
تاہم ڈاکٹر قیصر بنگالی کے خیال میں ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی بھی ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کا واحد حل حکومت اور دفاعی اخراجات میں کمی ہے جو کہ بہت زیادہ ہیں۔‘ 

شیئر: