کیا اوورسیز پاکستانی بھی ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے پابند ہیں؟
کیا اوورسیز پاکستانی بھی ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے پابند ہیں؟
ہفتہ 29 جون 2024 16:16
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
’ایف بی آر نان فائلرز کے لیے بنائے گئے قوانین اوورسیز پاکستانیوں کے خلاف بھی استعمال کرنے کا مجاز ہے‘ (فائل فوٹو: ایف بی آر)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-2024 کے بجٹ میں نان فائلرز کو ٹیکس دھارے میں لانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔
نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بیشتر اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا سمندر پار پاکستانی بھی اِن اقدامات کی زد میں آئیں گے؟
اس حوالے سے ایف بی آر کے ترجمان بختیار محمد کا کہنا ہے کہ موجودہ بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
’ایف بی آر کے انکم ٹیکس آرڈیننس کا سیکشن 114 ایسے شہریوں کے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے یا انہیں استثنیٰ ہونے سے متعلق بات کرتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انکم ٹیکس قوانین میں ’ریزیڈنٹ‘اور ’نان ریزیڈنٹ‘ پاکستانی شہری کی تعریف ہے یعنی اگر کوئی سمندر پار پاکستانی (چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو) ایک مالی سال کے دوران 183 دن پاکستان میں رہتا ہے تو اس کے لیے ملک کے اندر اور بیرون ملک موجود اپنے تمام اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانا ضروری ہوتا ہے۔‘
’اس عرصے سے ایک دن بھی کم پاکستان میں رہنے کی صورت میں سمندر پار پاکستانیوں کو انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
بختیار محمد کے مطابق ایف بی آر کا انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114 کے تحت یہ معیار مقرر کیا گیا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں سے انکم ٹیکس گوشوارے اسی صورت میں مانگے جائیں گے اگر وہ کسی بھی مالی سال یعنی یکم جولائی سے 30 جون تک پاکستان کے اندر 183 دن گزاریں، بصورت دیگر سمندر پار پاکستانی انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے سے مستثنیٰ ہوں گے۔ مقررہ عرصے تک پاکستان میں رہنے کے باوجود ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے سمندر پار پاکستانی ٹیکس ڈیفالٹر ہیں: ایف بی آر
ایف بی آر کے ترجمان نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے قانون پر گفتگو کرتے ہوئے ادارے کے قوانین کے اطلاق اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے معاملے کی وضاحت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سمند پار پاکستانی اس ضمن میں موجود قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے یعنی مال سال کے 183 دن پاکستان میں رہنے کے باوجود ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتا تو وہ نان فائلر یا ٹیکس ڈیفالٹر کہلائے گا جس پر ایف بی آر کے وہ تمام قانون لاگو ہوں گے جو کسی دوسرے نان فائلر پاکستانی شہری کے لیے بنائے گئے ہیں۔
غیر ملکی شہری کو کم سے کم دو ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ پاکستان میں کام کرنے پر انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے: ایف بی آر
بیرون ممالک سے پاکستان آ کر کام کام کرنے والے شہریوں کے لیے انکم ٹیکس قوانین پر بات کرتے ہوئے بختیار محمد نے مزید بتایا کہ دنیا کے ہر ملک میں کام کرنے پر انکم ٹیکس کی ادئیگی کرنا ہوتی ہے۔
’اسی طرح اگر کوئی بیرون ملک سے شہری پاکستان آکر کام کرتا ہے تو اسے بھی اپنی ملازمت کے دوسرے ماہ سے انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔‘
ٹیکس امور کے ماہر اور سابق وزیر مملکت اشفاق تولہ کہتے ہیں کہ ماسوائے امریکہ کے سبھی ممالک بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں سے ٹیکس گوشوارے حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے انکم ٹیکس قوانین کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ اگر وہ سال کے 182 دن بھی پاکستان میں رہیں تو انہیں ملک کے اندر یا بیرون ملک موجود اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
’تاہم حکومتیں دو ممالک کے درمیان بین الاقوامی معاہدوں کے تحت بیرون ملک مقیم کسی بھی شہری کے اثاثوں کی تفصیلات یا ٹیکس ریٹرنز منگوا سکتی ہیں۔
انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں کے فائلر یا نان فائلر ہونے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کے پاس انکم ٹیکس کے اس سیکشن کے علاوہ مزید کوئی اختیار نہیں کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں سے ٹیکس گوشوارے حاصل کر سکے۔
اشفاق تولہ کے مطابق کسی بھی سمندر پار پاکستانی کو پاکستان میں کسی مالی سال کے دوران 183 دن رہنے کی صورت میں ملک کے اندر اور بیرون ملک اپنی آمدنی کے تمام ذرائع بتانا ہوتے ہیں۔
’خلاف ورزی کی صورت میں ایف بی آر نان فائلرز کے لیے بنائے گئے قوانین کو سمندر پار پاکستانیوں کے خلاف بھی استعمال کرنے کا مجاز ہے۔‘
معاشی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا کے مطابق انکم ٹیکس کے قوانین میں ’ریزیڈنٹ‘ اور ’نان ریزیڈنٹ‘ پاکستانی شہری کی تعریف سمندر پار پاکستانیوں کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے کیونکہ یہ قانون واضح نہیں۔
انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر ٹیکس قوانین میں مختلف تبیدیلیاں کرتا آرہا ہے جو ٹیکس دہندگان کے لیے مختلف پییچیدگیوں کا سبب بن رہی ہیں۔
ان کے خیال میں ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ اس قانون میں سے ریزیڈنٹ اور نان ریزیڈنٹ پاکستانی شہری کی تعریف ختم کر کے نئے قانون مین تمام شہریوں کو ٹیکس گوشوارے اور انکم ٹیکس جمع کروانے کا پابند بنائے۔
انہوں نے ایف بی آر کے مذکورہ قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نان ریزیڈنٹ پاکستانی کو تو قانون میں ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے، تاہم حقیقت میں ایسے شہریوں کی پاکستان میں موجود جائیداد پر ٹیکس بھی لیا جا رہا ہے۔
شہباز رانا کے خیال میں ایف بی آر کے ایسے قوانین لوگوں کو ٹیکس سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہیں اور ان قوانین میں سقم دور کرنے کے بجائے نان فائلرز کو ٹیکس دھارے میں لانے کے لیے ایک اور قانون بنا لیا جاتا ہے۔