تحریک انصاف کی واپسی، کیا سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکمران اتحاد کمزور ہوا؟
جمعہ 12 جولائی 2024 12:39
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پی ٹی آئی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جمعے کو سُنی اتحاد کونسل کی اپیل پر مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم کیا بلکہ ان مخصوص نشستوں کی حقدار پاکستان تحریک انصاف کو قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اسمبلیوں کی صورت حال اب کیا ہو گی؟ اس فیصلے کے بعد سب سے بڑی کامیابی جو پی ٹی آئی کو ملی ہے، بطورِ جماعت تمام اسمبلیوں میں اس کی واپسی ہوئی ہے۔ جبکہ اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے خواتین اور دیگر مخصوص نشستوں پر ان کے 70 نئے ممبران بھی اب اسمبلیوں کا حصہ ہوں گے۔ ان 70 میں سے 30 مخصوص نشستیں انہیں پنجاب میں ملیں گی۔
پنجاب میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے.
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب اسمبلی میں اب ہماری تعداد 140 ہو جائے گی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب میں تحریک انصاف کا اپوزیشن لیڈر ہوں۔ اس فیصلے سے حق کی جیت ہوئی ہے۔ اگر فارم 45 کی بات پر بھی فیصلہ آ جائے تو اس وقت ہماری حکومت بن جائے گی۔ ہم پہلے بھی اپنا رول بخوبی ادا کر رہے ہیں اور اب ہماری طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔‘
دوسری طرف مسلم لیگ ن اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آتی۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے فیصلے پر ردعمل میں کہا کہ ’آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جو درخواست گزار نے عدالت سے مانگا تھا اس سے کہیں زیادہ عدالت نے اس کے حوالے کر دیا ہے۔ یعنی وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ یہ پہلے بھی عدالتوں کا لاڈلہ تھا اور اس فیصلے سے اس بات پر مہر ثبت ہو گئی ہے کہ یہ اب بھی لاڈلہ ہے۔ جو وہ نہیں بھی مانگتا اسے دے دیا جاتا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار اس فیصلے کو پاکستان کی سیاسی بساط پر ایک غیر معمولی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ ’اس فیصلے نے سب سے پہلا یہ کام کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ساکھ بحال کی ہے۔ اور کھیل کے نئے قوانین طے کر دیے اور سب کو موقع دے دیا ہے کہ اپنے مؤقف اور طریقہ واردات سے رجوع کرے۔ میرے خیال میں اس فیصلے سے جمہوریت کی جیت اور جمہوریت مخالف قوتوں کو کمزوری لاحق ہوئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس بات سے سمجھ آئے گی کہ وہ جس طریقے سے نظام چلانا چاہ رہی ہے ویسے نہیں چلے گا اور تحریک انصاف کو روشنی نظر آئی ہے کہ اگر نظام کے اندر رہ کر جدوجہد کریں گے اور اپنے رویے کو جمہوری بنائیں گے تو سب کی بھلائی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔‘
تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے تحریک انصاف میں نئی روح پھونکی ہے۔ ’اگر یہ نشستیں حکمران اتحاد کو مل جاتیں تو پھر دو تہائی اکثریت سے وہ پتا نہیں کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اس فیصلے نے اس صورت حال کو بھی زائل کیا ہے۔‘