Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈاکو نہیں باغی ہوں‘، ملکھان سنگھ جو انڈین پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج تھے

ملکھان سنگھ نے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے زیادتی کے خلاف بندوق اٹھائی (فوٹو: پرشانت بنجیار)
ایک زمانے تک انڈیا میں ڈاکوؤں کو ان کے بہیمانہ جرائم اور قتل و غارت گری کے باوجود بہت سی جگہ کسی ہیرو کی طرح دیکھا جاتا تھا اور آج بھی بہت سے لوگوں کی ان میں دلچسپی ہے کیونکہ وہ انھیں سماجی ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے والے باغی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ایسا ہی ایک ڈاکو ملکھان سنگھ ہے جس نے سنہ 1982 میں حکومت ہند کی معاف کرنے کی پالیسی کے تحت ڈکیتی کے راستے کو چھوڑ کے ایک عام انسان کی زندگی کو اپنایا۔
لیکن اس سے قبل وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک عوام اور پولیس دونوں کے لیے ایک چیلنج بنا رہا۔ مگر اب وہ خود کو ڈاکو کے بجائے ’باغی‘ کہتے ہیں۔
1982 میں دی ٹائم میگزن نے انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ ارجن سنگھ کے سامنے بڑی تعداد میں ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایک مضمون میں ملکھان سنگھ کا ذکر کیا ہے جو کہ اپنے پیغامات میں خود کو ’ڈاکوؤں کا راجہ‘ کہا کرتا تھا۔
ملکھان سنگھ اپنے زمانے میں پولیس کو تقریباً 100 مقدمات میں مطلوب تھا اور اس پر 22 لوگوں کے قتل اور تقریباً ڈیڑھ درجن اغوا کے معاملات درج تھے۔ لیکن ان کے گروہ کے ایک سرکردہ ڈاکو بیشمبر سنگھ کے مطابق ان لوگوں نے کبھی قتل اور لوٹ کی گنتی نہیں رکھی۔
بیشمبر سنگھ کے مطابق اس نے ملکھان سنگھ کے گروہ میں تقریباً دس سال گزارے اور معروف سیاستدان جے پرکاش ناراین کی کوششوں کے نتیجے میں اور حکومت سے معافی دلانے کی یقین دہانی کے بعد وہ اپنے پرانے پیشے سے دستبردار ہوئے۔
ان کے مطابق انھوں نے ایک شخص کے قتل کے بعد جس گینگ میں شمولیت اختیار کی اس میں کوئی 30 ڈاکو تھے اور ان کی سربراہی ملکھان سنگھ کر رہے تھے۔
لیکن دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے کبھی نچلی ذات کی بستیوں پر حملہ نہیں کیا جیسا کے اب کے ڈاکو کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ کھاتے پیتے زمیندار گھرانے، یا سود دینے والے ساہوکاروں کے اہل خانہ کو اغوا کرتے تھے اور ان سے تاوان وصول کرتے تھے۔
انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ جسے اغوا کرتے تھے ان کی اچھی دیکھ بھال اور خاطر مدارات کرتے تھے۔
اسی زمانے میں ہتھیار ڈالنے والوں میں سے ایک ڈاکو مادھو سنگھ تھا جس نے 200 قتل کیے تھے۔ مادھو سنگھ کا تذکرہ کبھی اور۔ ابھی ہم خود ساختہ ’ڈاکوؤں کے راجہ‘ ملکھان سنگھ کا ذکر کررہے ہیں۔

ملکھان سنگھ چمبل کے علاقوں میں پیدل سفر کیا کرتا تھا اور اس کی یا اس کے گینگ کی کوئی مستقل رہائش نہیں تھی (فوٹو: پرشانت بنجیار)

ہندی اخبار نوبھارت ٹائمز کے مطابق ملکھان سنگھ نے 15 سال تک چمبل کی گھاٹیوں پر حکومت کی۔ اسی وقت مدھیہ پردیش سے ملحق یوپی کے علاقوں میں کچھ نئے ڈاکو سر اٹھا رہے تھے جن میں سے ایک پھولن دیوی تھیں۔
پھولن دیوی نے اپنے گینگ ریپ کا بدلہ لینے کے لیے ویلنٹائن ڈے پر اونچی ذات کے 22 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، لیکن اس وقت تک چمبل کے علاقے میں سب سے زیادہ خوف ملکھان سنگھ اور اس کے گینگ کا  تھا۔
ملکھان سنگھ چمبل کے علاقوں میں پیدل سفر کیا کرتا تھا اور اس کی یا اس کے گینگ کی کوئی مستقل رہائش نہیں تھی۔ ملکھان ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ عارضی کیمپوں میں رہتا تھا جہاں کے اطراف میں گہری اور تنگ وادیاں تھیں۔
اے کے-47 رائفل
ملکھان سنگھ نے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے زیادتی کے خلاف بندوق اٹھائی تھی۔ لیکن یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ جب انڈین فورسز کے پاس جدید ترین ہتھیار اے کے-47 رائفل نہیں تھیں اس وقت ملکھان سنگھ اور ان کے ساتھ اے کے رائفل سے لیس تھے اور ان کی فائرنگ کی آواز جنگل میں گونجتی تھی۔
ان سے ملاقات کرنے والے صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس امریکی ساختہ خودکار رائفل تھیں۔ اس کے ساتھ جو دو درجن لوگ چلتے تھے ان کے پاس بھی اے کے-47 کاربائن رائفلیں تھیں۔

 2019 میں انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’میں ڈاکو نہیں بلکہ ایک باغی ہوں۔‘ (فوٹو: ڈی این اے انڈیا)

جون 1982 میں ڈاکوؤں کے راجہ کہے جانے والے ملکھان سنگھ نے ہزاروں لوگوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ملکھان سنگھ نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ ان گینگ کے کسی رکن کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے بھنڈ میں وزیر اعلی ارجن سنگھ کے سامنے تقریباً 30 ہزار لوگوں کے درمیان ہتھیاروں کے ساتھ خود سپردگی کی تھی۔
ہتھیار ڈالنے کے بعد ملکھان سنگھ نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی۔ لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں رہے البتہ ان کی اہلیہ سرپنچ ضرور بنیں۔
 2019 میں انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’میں ڈاکو نہیں بلکہ ایک باغی ہوں جس نے عزت نفس کے لیے بندوق اٹھائی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ اصل ڈاکو کون ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جائے۔‘
فوٹوگرافر پرشانت بنجیار ملکھان سنگھ اور حکومت کے درمیان ثالثی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’ڈیٹ وچ از ان سین‘ میں ملکھان سنگھ کے ساتھ کچھ دن گزارنے کا واقعہ بیان کیا ہے جس میں کہا ہے کہ وہ اپنے سامان خود لے کر چلتے تھے جن میں بستر، بارش سے بچنے کے لیے ترپال، ہتھیار اور کھانا پکانے کے سامان شامل ہوتے تھے۔
بہر حال سنہ 1947 کے آس پاس پیدا ہونے والے ملکھان سنگھ کو ہتھیار ڈالنے کے بعد کچھ دنوں تک کھلی جیل میں رکھا گیا لیکن اب وہ آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔
گذشتہ سال انھوں نے ریاست میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور کہا کہ انھوں نے مندر کی 100 ایکڑ زمین کے لیے بندوق اٹھائی تھی اور آج بھی ان کا وہی مطالبہ ہے مندر کو 100 ایکڑ زمین دی جائے۔

حکومت نے اس کے سر پر 70 ہزار کا انعام رکھا تھا جو کہ کسی کو بھی نہیں مل سکا (فوٹو: پرشانت بنجیار)

آج تک کی رپورٹ کے مطابق صرف 17 سال کی عمر میں اس نے گاؤں کے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ مندر کی زمین پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے جو کہ غلط ہے۔ جب اس کی خبر سرپنچ کو ملی تو اس نے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے ملکھان سنگھ کو حوالات کی سیر کرائی اور پولیس سے مار بھی پڑوائی۔
سرپنچ کیلاش ناراین پنڈت نے ملکھان کو ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس نے غیر قانونی راستہ اپنایا اور سرپنچ کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔
حکومت نے اس کے سر پر 70 ہزار کا انعام رکھا تھا جو کہ کسی کو بھی نہیں مل سکا کیونکہ ملکھان سنگھ نے خود ہتھیار ڈال دیے۔

شیئر: