Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا طریقہ کار کیا ہے اور ماضی میں کن جماعتوں پر پابندی لگی؟

مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونے کے بعد اس وقت پاکستان کے فوجی صدر جنرل یحیٰی خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پر پابندی لگا دی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے اور اس کے لیے بیرون ملک سے رقوم حاصل کرنے، امریکی سائفر کا معاملہ اٹھانے اور امریکہ میں پاکستان کے انتخابی عمل کے متعلق قرارداد منظور کروانے کی کوشش کرنے کے جواز پیش کیے ہیں۔
اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما ذوالفقار عباس بخاری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے پابندی کے لیے یہ وجوہات بیان کر کے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے کیونکہ عمران خان سائفر کیس میں پہلے ہی بری ہو چکے ہیں۔
’سپریم کورٹ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے سب سے بڑی پارٹی ہونے کی تصدیق کر چکی ہے، امریکی کانگریس کی قرارداد ایک سیاسی جماعت پر گزرنے والی ایک داستان کی نشاندہی کرتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی آزادانہ رائے اس چارٹر کی بنیاد پر دی گئی ہے جس پر پاکستان نے دستخط کیے ہوئے ہیں اور اس کا حصہ ہے۔ حکومت کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس معاملے پر اشتعال انگیز تبصرہ پاکستان کو رکنیت سے محروم کر سکتا ہے۔‘
اگرچہ حکومت ابھی پی ٹی آئی پر پابندی اور اس کے ساتھ عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پر غیرآئینی طور پر قومی اسمبلی توڑنے کے الزام کے تحت آرٹیکل 6 لگانے کے اقدامات منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کرے گی، اور اس کے بعد ہی کوئی حتمی قدم اٹھائے گی، لیکن یہ موضوعات چھیڑ کر حکومت نے ایک مرتبہ پھر سیاسی کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف پہلی سیاسی جماعت نہیں جس پر پابندی لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل بھی پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔

کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا طریقہ کار کیا ہے؟

آئین کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی سرگرمیوں کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔
قانونی طریقہ کار کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری کی منظوری وفاقی کابینہ دے گی۔ اس منظوری کے بعد وزارت داخلہ پارٹی پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ اس نوٹیفکیشن کی روشنی میں الیکشن کمیشن پارٹی کو ڈی لسٹ کرتے ہوئے اس کی رجسٹریشن ختم کر دے گا۔
اس اقدام کے نتیجے میں اگر پابندی کی زد میں آنے والی جماعت کی کسی بھی اسمبلی میں نمائندگی ہو گی تو ان ارکان کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔
الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق اگر پارٹی پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے ارکان سپیکر کو تحریری طور پر اپنی پارٹی سے وابستگی ختم کر کے آزاد حیثیت میں رہنے کے بارے میں آگاہ کر دیں تو ان کی رکنیت ختم نہیں ہوتی۔ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی رکنیت ختم ہوتی ہے بلکہ وہ ضمنی الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہتے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگتی ہے تو اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔
’سپریم کورٹ بھی اگر وفاقی حکومت کے فیصلے کو درست قرار دے دے تو وہ پارٹی ختم ہو جاتی ہے۔ پارٹی ختم ہونے کا مطلب ہے کہ حکومت اس کے دفاتر سیل اور اثاثہ جات قبضے میں لے کر بینک اکاؤنٹس منجمند کر دیتی ہے۔ اور وہ جماعت انتخابات میں حصہ لینے کی اہل بھی نہیں رہتی۔‘

عمران خان کے دور حکومت میں سندھ کی جماعت جیے سندھ قومی محاذ پر پابندی لگ چکی ہے۔ (فائل فوٹو: ایکسپریس)

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان

پاکستان بننے کے چند سالوں بعد ہی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر اس وقت پابندی لگا دی گئی تھی جب دنیا میں کمیونزم زور پکڑ رہا تھا اور امریکہ اور روس میں سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔
اس وقت سنہ 1951 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کا الزام لگا کر پابندی لگائی گئی تھی۔
کیمونسٹ پارٹی پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے سوویت یونین کی مدد سے میجر جنرل اکبر خان کی قیادت میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔
اس مقدمے کے سلسلے میں میجر جنرل اکبر خان، ان کی اہلیہ، شاعر فیض احمد فیض، درجنوں فوجی اہلکار اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر گرفتار کر لیے گئے تھے۔

عوامی لیگ

سنہ 1971 میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں حالات خراب ہونے کے بعد اس وقت پاکستان کے فوجی صدر جنرل یحیٰی خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پر پابندی لگا دی تھی۔
عوامی لیگ سنہ 1970 میں ہونے والے قومی انتخابات میں سب سے مقبول جماعت بن کر ابھری تھی تاہم اس کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا تھا جس کے بعد مشرقی پاکستان میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔
یحیٰی خان نے عوامی لیگ پر پابندی کا جواز ان کی تحریک عدم تعاون کو قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ عمل غداری ہے۔
عوامی لیگ پر پاکستان کے پرچم کی بے حرمتی اور قائداعظم کی تصویر کی توہین کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔

سنہ 1951 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کا الزام لگا کر پابندی لگائی گئی تھی۔ (فائل فوٹو: فیس بک)

نیشنل عوامی پارٹی

پختون رہنما ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پاکستان کی ایسی سیاسی جماعت ہے جس پر دو مرتبہ پابندی لگائی گئی۔
پہلی مرتبہ سنہ 1971 میں یحیٰی خان نے نیپ پر پابندی لگائی جبکہ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سنہ 1975 میں جمہوری دور حکومت میں دوبارہ اس جماعت پر پابندی لگا دی۔ تاہم اس جماعت کے اکابرین نے پہلے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی کے تحت دوبارہ سیاسی جدوجہد شروع کر دی۔

جیے سندھ قومی محاذ

اگرچہ عمران خان اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اس وقت خود پابندی کا سامنا کر رہے ہیں لیکن سال 2020 میں ان کے دور حکومت میں سندھ کی جماعت جیے سندھ قومی محاذ پر پابندی لگ چکی ہے۔
جیے سندھ قومی محاذ کے ساتھ دو گروہوں سندھو دیش لبریشن آرمی اور سندھو دیش ریولوشنری آرمی پر بھی دہشت گردی کے الزاماات کے تحت پابندی لگائی گئی تھی۔

ٹی ایل پی

پاکستان تحریک انصاف ہی کے دور میں ٹی ایل پی پر سنہ 2021 میں پابندی لگائی گئی تھی تاہم بعد ازاں یہ پابندی ختم کر دی گئی۔

ٹی ایل پی نے پابندی کے باوجود انتخابات میں حصہ لیا تھا کیونکہ الیکشن کمیشن نے اس کو ڈی لسٹ نہیں کیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ٹی ایل پی پر پُرتشدد حملوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانیں لینے کا الزام لگایا گیا تھا تاہم پارٹی کی جانب سے احتجاج کے بعد کچھ ہی ماہ میں پابندی ختم کر کے اس کے سربراہ سعد رضوی کو رہا کر دیا گیا تھا۔
ٹی ایل پی نے پابندی کے باوجود انتخابات میں حصہ لیا تھا کیونکہ الیکشن کمیشن نے اس کو ڈی لسٹ نہیں کیا تھا۔

شیئر: