آئینی بریک ڈاؤن کا بیان، حکومت کس سے خطرہ محسوس کر رہی ہے؟
ہفتہ 20 جولائی 2024 8:23
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق حکومت کو ایک نہیں کئی چیلنجز بلکہ بحرانوں کا سامنا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ان دنوں بہت سی پیش رفت ہو رہی ہیں جن میں عدلیہ کی جانب سے عمران خان کو اب تک دی گئی سزاؤں سے بری ہونا، ان کی جماعت کو مخصوص نشستیں واپس کرنے کا فیصلہ، حکومت کی جانب سے عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ قائم کرنے اور تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کا اعلان شامل ہیں۔
اب تک تو صرف عدلیہ کے فیصلے کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن جمعرات کی شام وزیر دفاع خواجہ آصف نے سسٹم کے ڈی ہونے اور آئینی بریک ڈاون کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہفتے دس دن میں معاملات کس طرف جاتے ہیں واضح ہو جائے گا۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ملک میں مارشل لا نافذ نہیں ہو رہا۔
اس حوالے سے تجزیہ کار نادیہ نقی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت کو معلوم ہے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونا۔ اس لیے جب دو اداروں کا تصادم ہوتا ہے تو اسی کو آئینی بریک ڈاؤن کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں حکومت بے بس ہے کیونکہ وہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی۔ اس کو جو کہا جا رہا ہے وہ کر رہی۔ ممکن ہے کہ اگر اسی فیصد بھی سول بالادستی ہوتی تو ن لیگ یہ فیصلہ قبول کر لیتی لیکن حکومت اس وقت طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اسی لیے آئینی بریک ڈاون کا خطرہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف پر پابندی کا فیصلہ بھی ن لیگ کا اپنا نہیں تھا بلکہ کئی ن لیگی رہنما اس فیصلے کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں چاہتے لیکن حکومت مجبور اور بے بس ہے بلکہ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں وہ صرف نام کی حکومت ہیں۔‘
نادیہ نقی نے کہا کہ ’اس وقت ن لیگ کے اندر خانے بھی چہہ مگوئیاں اور سرگوشیاں جاری ہیں کہ آگے پتہ نہیں کیا ہوگا۔ لیکن جو بھی ہوگا اس کا اصل سکرین پلے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے بعد ہی ہوگا اور ممکن ہے اس کے بعد ن لیگ کیا کسی بھی جماعت کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے۔ یہ غیر آئینی اقدام بھی ہو سکتا ہے اور ظاہر یہ سوچ سمجھ کر نہیں بلکہ غصے میں لیا جاتا ہے۔ اس وقت اسٹبلشمنٹ یہ طے کر چکی ہے کہ تحریک انصاف کو معاف نہیں کرنا اور عمران خان کو اندر رکھنا ہے لیکن عدلیہ ان کے ان فیصلوں کے راستے میں رکاوٹ ہے تو ان کے پاس واحد راستہ غیرآئینی اقدام ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ بظاہر اب یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ’اسٹیبشمنٹ ن لیگ سے بھی مایوس ہو چکی ہے کیونکہ جس محاذ پر بھی دیکھیں ن لیگ تحریک انصاف کو کاؤنٹر کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے باوجود میڈیا سپیس ان کے پاس ہے۔ بیانیہ ان کا مضبوط ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطیوں کا بوجھ بھی ن لیگ پر ڈالے گی۔‘
جہاں ایک طرف سیاسی بحران ہے وہیں ملک میں معاشی بحران بھی موجود ہے۔ بجلی کے بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عوامی سطح پر بھی حکومت کو ردعمل کا سامنا ہے۔ اس صورت حال نے بھی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے۔
تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو ایک نہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ بحرانوں کا سامنا ہے۔ حکمران جماعتوں کی مقبولیت ختم ہو چکی ہے اور حکومت میں ان کی موجودگی پر بھی قانونی سوالات موجود ہیں کیونکہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے سوالات کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت ڈری ہوئی ہے کہ کہیں ایسی صورت حال نہ بن جائے کہ فوری طور پر انتخابات کی طرف جانا پڑ جائے یا ملک میں مہنگائی اور معاشی صورت حال پر احتجاج یا بڑے پیمانے پر مظاہرے نہ شروع ہو جائیں۔ ان تمام خطرات اور خدشات کی وجہ سے حکومت خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایسے فیصلے کر رہی ہے یا اس سے کروائے جا رہے جن کو وہ خود بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔‘