Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنوں امن دھرنا کے 10 مطالبات: حکومت اور کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور

صوبائی وزیر کا مزید کہنا ہے کہ صوبے میں امن و امان وزیراعلی کی اولین ترجیح ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بنوں میں جاری امن دھرنے کے شرکا نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت، مسلح گروپوں پر پابندی، سی ٹی ڈی کو اختیار دینے اور گھروں پر چھاپے سمیت 10 مطالبات صوبائی حکومت کے سامنے رکھ دیے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں تیسرے روز بھی تحریک امن پاسون کی جانب سے امن دھرنا جاری ہے جس میں تمام سیاسی اور سماجی عمائدین شریک ہیں۔
حکومت کی جانب سے امن دھرنا کے ساتھ مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا جس میں دھرنے کے شرکا نے حکومتی وفد کے سامنے دھرنا ختم کرنے کے لیے 10 مطالبات رکھ دے ہیں۔

امن دھرنا کے مطالبات

بنوں دھرنے کے عمائدین نے سب سے پہلے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہ آپریشن کسی صورت منظور نہیں ۔ دوسرا مطالبہ مسلح گروپوں کے خلاف پابندی کے حوالے سے ہے جس میں کہا گیا کہ بنوں میں موجود تمام مسلح گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔
عمائدین کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کی پولیس کو رات 8 بجے کے بعد پیٹرولنگ کی اجازت دی جائے اور جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف صرف پولیس کو کارروائی کی اجازت دی جائے۔
امن پاسون نے مطالبہ کیا کہ مدرسے اور گھروں پر غیر ضروری چھاپے بند کیے جائیں جبکہ پولیس کی نفری کی کمی کو پورا کرکے سی ٹی ڈی کو دہشت گردی کے خلاف مکمل اختیار دیا جائے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ کینٹ سے متصل سڑک کو آمد و رفت کے لئے فورا کھول دیا جائے۔
عمائدین نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کا علاج بھی سی ایم ایچ میں کیا جائے۔
صوبائی حکومت کے سامنے امن دھرنے کی جانب سے مطالبات رکھنے کے بعد بونے والے مذاکرات کے دور میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
تاہم  کمیٹی آج 22 جولائی کو وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات کرے گی ۔

وزیراعلی علی امین گنڈا پور کا بیان

قبل ازیں اتوار کو وزیراعلی علی امین گنڈا پور نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پیر کو کمیٹی سے ملاقات ہوگی جو امن دھرنے کے حوالے سے بات کرے گی۔‘
انہوں نے بتایا تھا کہ کچھ مسلح لوگ سرکاری اہلکار بن کر سرکاری اور غیر سرکاری معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں جس پر عوام اور حکومت کو شدید تحفظات ہیں۔ وزیراعلی نے بتایا کہ ہمارے یہ تحفظات کئی سالوں سے ہیں اور میں نے نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس میں اس بات کی نشاندہی کی تھی۔

دھرنے کے شرکا اور حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوچکا ہے۔ (فوٹو: ایکس)

وزیراعلی علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ پولیس ایسے مسلح عناصر کے خلاف کارروائی کرکے انہیں فوراً  گرفتار کرے۔

جرگے کا دوسرا دور شروع

دھرنے کے شرکا اور حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوچکا ہے۔

صوبائی وزیر ملک پختون یار خان، ملک عدنان خان، ڈی سی بنوں اور ممبران کمیٹی امن جرگہ مذاکرات کے لیے پہنچ گئے ہیں۔
بنوں سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر پختون یار نے اردو نیوز کو بتایا کہ دھرنے کے عمائدین کی جانب سے مطالبات پیش کرنے کے بعد وزیراعلی کو اس حوالے سے  آگاہ کر دیا گیا ہے۔
‘اب حکومی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعلی مذاکرات کی کامیابی کے لیے پر ممکن اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان وزیراعلی کی اولین ترجیح ہے۔
’اج مذاکرات کے بعد حتمی معاملات کی جانب بڑھیں گے جس کے بعد میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب امن دھرنے میں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی اور منظور پشتین سمیت سابق ایم این اے علی وزیر بھی شریک ہیں۔
واضح رہے کہ 19 جولائی بروز جمعہ کو بنوں مین امن مارچ پر فائرنگ اور بھگڈر سے 2 ہلاک اور 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعہ کے بعد امن مارچ کے شرکا نے دھرنا دے دیا ہے۔

شیئر: