قاتلانہ حملے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے کان پر گولی لگی، ایف بی آئی کی تصدیق
قاتلانہ حملے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے کان پر گولی لگی، ایف بی آئی کی تصدیق
ہفتہ 27 جولائی 2024 7:53
13 جولائی کو ایک انتخابی ریلی کے دوران سابق امریکی صدر پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ (فوٹو: اے پی)
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے تقریباً دو ہفتوں بعد امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے تصدیق کی ہے کہ ان کے کان پر گولی ہی لگی تھی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایف بی آئی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ ’سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کان پر جو چیز لگی تھی وہ گولی تھی۔ چاہے مکمل (گولی لگی) ہو یا پھر اس کے ٹکڑے، لیکن حملہ آور کی رائفل سے چلائی گئی تھی۔‘
یہ بیان ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے جنہیں ٹرمپ نے 2017 میں اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا، کے ایوان نمائندگان میں پیش ہونے کے دو دن بعد سامنے آیا ہے۔
انہوں نے ایوان کو بتایا تھا کہ ’اس بارے میں کچھ سوالات ہیں کہ یہ گولی تھی بھی یا نہیں جو ان کے کان پر لگی۔‘
ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کے تبصرے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور اتحادیوں نے ان پر سخت تنقید کی تھی۔ ان کے تبصرے سے سازشی نظریوں کو مزید تقویت ملی تھی، جو 13 جولائی کو سابق امریکی صدر پر قاتلانہ حملے کے بعد معلومات کی کمی کی وجہ سے امریکی سیاست میں پروان چڑھے تھے۔
اب تک ایف بی آئی اور سیکرٹ سروس سمیت تحقیقات میں شامل وفاقی قانون نافذ کرنے والے ایجنٹوں نے بارہا ڈونلڈ ٹرمپ کے زخمی ہونے کی وجہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے اُس ہسپتال سے میڈیکل ریکارڈ جاری کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا جہاں ان کا علاج کیا گیا تھا۔
زخمی ہونے سے متعلق معلومات یا تو خود ڈونلڈ ٹرمپ یا ان کے وائٹ ہاؤس کے سابق ڈاکٹر رونی جیکسن کی طرف سے آئیں، جو ان کے ایک مضبوط حامی ہیں اور کانگریس میں ٹیکساس کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر رونی جیکسن حملے کی رات سے ڈونلڈ ٹرمپ کا علاج کر رہے ہیں تاہم وہ کافی محتاط نگرانی کے بعد میڈیکل بورڈ میں آئے ہیں اور ان کے ’پرائمری‘ معالج بھی نہیں ہیں۔
ایف بی آئی کی جانب سے سابق صدر کے بیانات کی تصدیق کے حوالے سے گریز نے ریپبلکن کے نامزد امیدوار اور ملک کی سب سے بڑی قانون نافذ کرنے والی وفاقی ایجنسی کے درمیان تناؤ کو جنم دیا ہے جس پر وہ جلد ہی ایک مرتبہ پھر کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے بارہا قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں پر ان کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
حملے کے فوراً بعد ٹرمپ کے زخم کی شدت اور نوعیت کے بارے میں سوالات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے کیونکہ ان کی انتخابی مہم اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے ان کی حالت یا ان کے علاج کے بارے میں سوالات کے جوابات دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے قاتلانہ حملے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ ناقابل یقین ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔
انہوں سوشل ٹروتھ پر لکھا تھا کہ ’میں نے سیٹی کی طرح آواز سنی، گولیاں چلیں اور مجھے محسوس ہوا کہ ایک گولی میری جلد کو چیرتی ہوئی نکل گئی ہے۔ جب کافی خون بہہ گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ کچھ ہوا ہے۔‘
19 جولائی کو ریپبلکن نیشنل کنونشن میں صدارتی نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’اگر آخری لمحے میں اپنے سر کو نہ ہلایا ہوتا تو گولی نشانے پر لگتی اور میں آج کی رات آپ کے درمیان موجود نہ ہوتا۔‘
لیکن ٹرمپ کی صحت سے متعلق پہلی رپورٹ ایک ہفتے تک نہیں آئی تھی۔ گزشتہ سنیچر کو جب ٹرمپ کے معالج رونی جیکسن نے اپنا پہلا لیٹر جاری کیا تو اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’ٹرمپ کے کان میں لگنے والی گولی سے دو سینٹی میٹر چوڑا زخم بنا تھا۔‘
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ٹرمپ کا ہسپتال میں سی ٹی سکین ہوا تھا۔
لیکن ایف بی آئی اور سیکرٹ سروس نے اس بیان کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ایوان میں کرسٹوفر رے نے اس معاملے پر بظاہر متضاد جوابات پیش کیے۔