Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن، کیا پولیس کے پاس صلاحیت موجود ہے؟

صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف اپنایا گیا کہ صوبے میں آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی (فوٹو: اے ایف پی)
خیبرپختونخوا کی حکومت نے پولیس اور سی ٹی ڈی کو دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن کا ٹاسک سونپ دیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے بعد جنوبی اضلاع بالخصوص ضم اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف اپنایا گیا کہ صوبے میں آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، تاہم پولیس کی مدد سے مشتبہ جگہوں پر سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیا جائے گا۔ پولیس حکام کے مطابق ایلیٹ فورس اور سی ٹی ڈی جنوبی اضلاع میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی کر رہی ہے مگر کچھ علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔
آپریشن صرف پولیس کرے گی 
خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے موقف اپنایا کہ صوبے میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا اور نہ کسی کو اجازت دی جائے گی کہ ماضی کی طرح پھر سے لوگوں کو بے گھر کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں دہشت گردوں کی اطلاع ملی وہاں پولیس اپنے دیگر اداروں کی مدد سے آپریشن کرے گی جس میں کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ اور ایلیٹ فورس شامل ہیں۔
صوبائی وزیر آفتاب عالم نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے پولیس کے پاس تجربہ موجود ہے۔ ’حکومت کا کام ہے پولیس کو جدید اسلحہ اور جنگی سامان مہیا کرنا ہے جس کے لیے پہلے سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ سی ٹی ڈی کی استعدادکار کو بڑھادیا گیا ہے جبکہ جنوبی اضلاع میں پولیس فورس کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔
تجزیہ کار کی رائے 
سینیئر صحافی صفی اللہ نے اردو نیوز سے گفتگو کے دوران بتایا کہ پولیس کے پاس نفری کی کمی ہے خاص طور پر جب قبائلی علاقے صوبے میں ضم ہوئے تو ان اضلاع کے پاس پولیس فورس کا مسئلہ سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں ایک تھانے کی نفری کی تعداد 35 رکھی گئی ہے جبکہ اس کی حدود 12 کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہوت ہے۔
’آپ خود اندازہ لگالیں کہ پہاڑی علاقوں میں ان اہلکاروں کے ساتھ تھانے کی حدود کو کیسے نگرانی کی جاسکتی ہے۔‘
صحافی صفی اللہ نے کہا کہ پولیس کے پاس ہتھیار بھی پرانے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں دہشت گردوں کے پاس نیٹو فورسز کا جدید اسلحہ موجود ہے جو امریکی انخلا کے وقت دہشت گردوں کے ہاتھ آگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پولیس اور سی ٹی ڈی دونوں کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے پڑیں گے۔
صفی اللہ کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کے پاس رات کے آپریشن کے لیے صرف حساس ترین علاقوں میں چند نائٹ ویژن ہتھیارموجود ہیں جو کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ معمول کے آپریشن پولیس کرسکتی ہے مگر بڑے آپریشن کے لیے سکیورٹی فورسز کا ہونا ضروری ہے۔‘

رواں سال خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے حملوں میں اب تک 76 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 113 زخمی ہوئے (فوٹو: کے پی پولیس)

سابق انسپکٹر جنرل پولیس اخترعلی شاہ کہتے ہیں کہ تھریٹ لیول کا اندازہ لگا کر آپریشن کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے، جو حساس ترین ہیں اس مقام پر ایف سی اور پاک فوج کے اہلکاروں کو فرنٹ پر رکھا جائے اور پولیس کو سرچ کے لیے تعینات کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ سوات میں اسی حکمت عملی سے آپریشن کیے گئے جہاں مقامی پولیس کو سکیورٹی فورسز نے ساتھ رکھا  کیونکہ  علاقے کے بارے میں پولیس کا زیادہ علم  ہوتا ہے۔
سابق آئی جی پولیس اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ 2004 میں پولیس نے اکیلے فرنٹ لائن پر رہ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مردان پولیس کی مثال ہمارے سامنے ہے جنھوں نے زبردست کارروائی سے کالعدم طالبان کو مردان کی حدود سے نکالا۔
آئی جی اختر علی شاہ نے کہا کہ صوبے کے پاس سات ہزار انسداد دہشت گردی ایلیٹ فورس موجود ہے جبکہ سی ٹی ڈی کا دائرہ کار بھی بڑھادیا گیا ہے۔ ’اگر بہتر طریقے سے حکمت عملی ترتیب دی جائے تو پولیس کسی بھی ناخوشگوار حالات کا مقابلہ کرسکتی ہے۔‘
دوسری جانب امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کے پی پولیس نے تین ارب روپے کے جدید ہتھیار، بلٹ پروف جیکٹس اور گاڑیاں خرید لی ہیں جبکہ لکی مروت، ڈی آئی خان اور بنوں سمیت حساس اضلاع کے لیے تھرمل، نائٹ ویژن ہتھیار بھی خریدے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے حملوں میں اب تک 76 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 113 زخمی ہوئے۔

شیئر: