سندھ پولیس کا گُھڑسوار دستہ، جرائم کے خلاف مؤثر حکمت عملی یا محض وقتی مہم؟
سندھ پولیس کا گُھڑسوار دستہ، جرائم کے خلاف مؤثر حکمت عملی یا محض وقتی مہم؟
منگل 30 جولائی 2024 6:05
زین علی -اردو نیوز، کراچی
محکمہ پولیس سندھ کی جانب سے کراچی کے ساحل کو محفوظ بنانے کی غرض سے کراچی میں پولیس اہلکاروں کا ایک دستہ تیار کیا گیا ہے جو گھوڑوں پر سوار ہو کر کلفٹن اور سی ویو کے ساحل پر سیر و تفریح کی غرض سے آنے والوں کو تحفظ فراہم کرے گا۔
کلفٹن پولیس کے مطابق سی ویو اور کلفٹن سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والوں کے ساتھ لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
عوامی شکایات پر پولیس نے اس فورس کو سمندر کنارے تعینات کیا ہے۔
ایس ڈی پی او کلفٹن محمد آریز تاجور کے مطابق کچھ عرصے سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ سی ویو سے جرائم پیشہ افراد کلفٹن اور درخشاں کے علاقوں میں داخل ہورہے ہیں۔
’جرائم کی واردتوں کو روکنے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ کراچی کے سمندر کنارے گھڑ سوار فورس ’ماونٹین‘ کو تعینات کیا جائے، اور جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر دو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ ایک ٹیم کلفٹن سے سی ویو کے آغاز تک گشت پر مامور ہو گی جبکہ دوسری ٹیم سی ویو کے آغاز سے کلاک ٹاور تک تعینات ڈیوٹی کرے گی۔ دونوں ٹیموں میں چار چار گھڑ سوار پولیس اہلکار شامل ہوں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ماؤنٹین پولیس کے اہلکار ناصرف امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیےاقدامات کریں گے بلکہ سمندر میں جانے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی روکیں گے۔‘
سندھ پولیس کا یہ اقدام کتنا مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟
سینیئر کرائم رپورٹر ثاقب صغیر کے مطابق سندھ پولیس جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف اوقات میں مختلف اقدامات کرتی رہی ہے۔ کراچی کے سمندر پر گھڑسوار فورس کی تعنیاتی کو ایک پروجیکٹ کے طور پر تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن یہ کوئی مؤثر حل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جدید دور میں جرائم پیشہ افراد واردات میں موٹر سائیکل اور گاڑی کا استعمال کر رہے ہیں، ایسے میں ساحل پر گھوڑوں پر سوار پولیس اہلکار پانی میں جانے والے شہریوں کو تو شاید روکنے میں کامیاب ہو سکیں گے، لیکن لوٹ مار کرنے والوں کو کنٹرول کرنا ان کے لیے ایک مشکل ٹاسک ہو گا۔‘
ماضی میں بھی ایسے کئی منصوبے سندھ پولیس کی جانب سے متعارف کرائے گئے ہیں لیکن ان کے بھی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔
جامعہ کراچی شعبہ جُرمیات کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ شہریار کے مطابق کراچی میں گھڑ سوار پولیس کی تعیناتی فوٹو سیشن پروجیکٹ سے زیادہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ہم نے دیکھا کہ اس شہر میں جرائم کو روکنے کے لیے پولیس نے لڑکے لڑکیوں کا سکیٹس سکواڈ متعارف کرایا گیا، کہا گیا کہ شہر میں تنگ علاقوں میں یہ سکواڈ کام کرے گا اور مجرموں کو گرفت میں لائے گا۔‘
’اب اس سکواڈ کے بارے میں معلوم کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ سکواڈ کراچی میں ہونے والے کرکٹ میچز میں فرائض انجام دیتا ہے۔ مطلب سال دو سال میں ایک یا دو میچ ہونے پر وہ سکواڈ کام کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح ٹریفک پولیس نے ایک اعلان کیا کہ تنگ اور گنجان مارکیٹوں اور سڑکوں پر ٹریفک اہلکاروں کا ایک سائیکل سکواڈ کام کرے گا۔ کچھ دن ٹریفک اہلکار سائیکلوں کے ساتھ کچھ مقامات پر نظر آئے، اب وہ سکواڈ بھی مکمل طور پر غیر فعال نظر آتا ہے۔‘
ڈاکٹر نائمہ شہریار کے مطابق اس طرح کے پروجیکٹ میڈیا کی توجہ تو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن عوام کو ان سے کچھ خاص فوائد حاصل نہیں ہوتے۔