Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی ’خونی نہر‘ جو چند ماہ کے دوران درجنوں نوجوانوں کو نگل گئی

انتظامیہ نے بے در پے حادثات کے بعد دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے نہر میں نہانے پر پابندی لگا دی ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقے پر واقع حب ڈیم سے کراچی کو پانی سپلائی کرنے والی نہر میں آئے روز نوجوان ڈوب کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔
اب پے در پے حادثات کے بعد صوبائی حکومت خوابِ غفلت سے جاگ گئی ہے، اور انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے نہر میں نہانے پر پابندی لگا دی ہے۔
کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن کے رہائشی محمد عامر نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ اور ان کے دوست شہر میں شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ سے پریشان تھے، چنانچہ ہم چھ دوستوں نے اتوار کو حب ندی جانے کا پروگرام بنایا۔
’صبح سویرے سب جمع ہوئے، منگھوپیر روڈ پر واقع قلندری ہوٹل پہنچے وہاں ناشتہ کیا، اور اپنی موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر حب نہر پہنچ گئے، واٹر بورڈ پلانٹ سے آگے بڑھے اور پل پار کر کے موٹر سائیکلیں ایک محفوظ مقام پر پارک کیں۔ اس روز نہر پر معمول سے کئی گنا زیادہ رش تھا۔
’ہم دوستوں نے کپڑے تبدیل کیے اور نہر میں رسی باندھی اور چھلانگ لگا دی، شدید گرم موسم میں نہر کا ٹھنڈا پانی کسی نعمت سے کم نہ تھا، تقریباً تین سے چار گھنٹے تک ہم نہر میں نہاتے رہے، پھر ایک ایک کر کے سب واپس اس درخت کے نیچے جمع ہونا شروع ہوگئے جہاں ہم نے موٹر سائیکل پارک کی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک ایک کر کے سب واپس آگئے لیکن شعیب واپس نہیں آیا، رش بہت زیادہ تھا اور سب تقریباً اردگرد کے ہی لوگ پانی میں تھے تو سب ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے نہا رہے تھے، ہمیں سمجھے کہ شاید شعیب ابھی تک نہر کے ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
’کچھ زیادہ وقت گزر گیا تو عمیر کو کہا کہ شعیب کو بلا لائے شام ہو رہی ہے، عمیر شعیب کو دیکھنے گیا تو اسے بھی کافی وقت گزر گیا، بعدازاں عمیر نے بتایا کہ شعیب تو نہر میں نظر نہیں آرہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اردگرد بھی ڈھونڈا لیکن کچھ پتا نہیں چل سکا، جب شور شرابا ہوا تو مقامی افراد نے خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں شعیب اس نہر کے بہاؤ میں تو نہیں بہہ گیا؟ کیونکہ یہ نہر مختلف مقامات پر گہری اور پتھریلی ہے، یہاں ذرا سی غلطی سے بھی حادثہ پیش آسکتا ہے۔‘
’کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد نہر سے واٹر بورڈ پلانٹ کی جانب جاتی نہر کے ایک بند مقام سے ایک شخص کی نعش کو باہر نکالا گیا، وہ ہمارا دوست شعیب تھا جو صبح ہمارے ساتھ ہنستے مسکراتے اس نہر میں تفریح کے لیے آیا تھا۔

فلاحی اداروں کے مطابق رواں برس بھی اب تک بڑی تعداد میں نوجوان حب نہر میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

حب نہر میں شعیب اور ان جیسے کئی نوجوان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور افسوس یہ کہ ان مرنے والوں کی اصل تعداد کا مکمل ریکارڈ بھی کسی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے۔ ان میں کئی افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی شناخت بھی نہیں ہو پاتی۔
کراچی کے فلاحی اداروں اور مقامی افراد کے مطابق حب نہر میں آئے روز کوئی نہ کوئی نوجوان ڈوب کر اپنی جان کی بازی ہار جاتا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق ان میں کئی افراد کی انٹری فلاحی اداروں کے پاس ہوتی ہے اور بعض افراد اپنے پیاروں کو خود تلاش کرکے ان کی میتیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ کے دوران شہر میں 62 افراد ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں بڑی تعداد حب نہر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی ہے۔
اسی طرح دیگر فلاحی اداروں کی جانب سے بھی نہر میں ڈوبنے والوں کی نعشیں نکالی گئی ہیں۔  
واٹر کارپوریشن سے تعلق رکھنے والے طفیل شیخ گذشتہ کئی برسوں سے حب ڈیم اور منگھوپیر میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
ان کے مطابق حب ڈیم سے کراچی کو پانی فراہم کرنے والی نہر تقریباً 21 کلومیٹر طویل ہے، اس کے علاوہ 8 کلومیٹر کا وہ حصہ ہے جو واپڈا کی حدود میں آتا ہے، سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں کے ادارے حب ڈیم کے اطراف موجود ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ’نوجوان روکنے کے باوجود بھی چھوٹے بڑے پوائنٹس سے نہر میں اُتر جاتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اگر سال بھر کی ہی بات کی جائے تو تقریباً 70 سے 80 افراد اس نہر میں ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں بیشتر افراد اردگرد سے سیر و تفریح کے لیے آئے تھے، اور پابندی کے باوجود پانی میں اُتر کر اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔‘
طفیل شیخ کے مطابق ’کچھ نعشیں جالی میں آکر پھنس جاتی ہیں جبکہ بعض کے بارے میں وہاں موجود افراد سے اطلاع ملتی ہے۔‘
’ہمارے ریکارڈ میں آنے والی نعشوں کی انٹری تو پولیس میں ہوجاتی ہے لیکن جو نعشیں لوگ خود نکال کر لے جاتے ہیں ان کا کہیں کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ نہر میں نہانے پر پابندی عائد ہے، اس لیے ڈوبنے والوں میں بیشتر افراد کی نعشیں ان کے عزیز و اقارب کسی قانونی کارروائی کے بغیر ہی لے جاتے ہیں۔
طفیل شیخ نے مزید بتایا کہ دو روز قبل بھی دو نوجوان حب نہر میں نہاتے ہوئے ڈُوب کر مر گئے۔
کراچی ضلع ویسٹ پولیس کے مطابق حب نہر میں شہر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں نہانے کے لیے آتے ہیں۔
’مقامی پولیس انہیں پانی میں جانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن پھر بھی چھوٹے بڑے پوائنٹس سے نوجوان نہر میں اُتر جاتے ہیں۔‘
ضلع ویسٹ پولیس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ 25 جولائی کو حکومت کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے، پولیس سمیت دیگر ادارے کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو نہر سے دُور رکھا جائے۔

شیئر: