Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں سستے موبائل فون کا جھانسہ دے کر شہریوں کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کم میموری اور ریم والے سمارٹ فونز کے سافٹ ویئر میں تبدیلی کر کے انہیں مہنگے داموں فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ 10 سے 12 ہزار روپے کی مالیت کے فون میں معمولی سی تبدیلی کر کے اسے 25 سے 30 ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
کراچی کی رہائشی علینہ جاوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے تین ماہ قبل آن لائن پلیٹ فارم سے ایک موبائل فون خریدا۔ مارکیٹ میں اس فون کی قیمت 27 ہزار روپے تھی، لیکن آن لائن ایپ پر ڈیل کے ذریعے انہوں یہ فون 17 ہزار پانچ سو روپے میں ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون کا آن لائن آرڈر کیا، دو روز بعد ایک رائیڈر موبائل فون لے کر گھر آیا، ڈبہ پیک موبائل فون ہمارے پاس آیا، رائیڈر نے کہا کہ فون کھول کر چیک کر لیں، چارجر، وارنٹی کارڈ اور دیگر سامان سے مطمئن ہو جائیں تو اس کے پیسے دے دیں۔
’ہم نے نئے موبائل فون کا ڈبہ کھولا، سامان چیک کیا، فون آن کیا اور کیمرہ، میموری سمیت دیگر سیٹنگز چیک کی، تسلی کرنے کے بعد رائیڈر کو پیسے ادا کیے اور وہ چلا گیا۔‘
علینہ جاوید کے مطابق کچھ دن تو موبائل ٹھیک چلا پھر سلو ہونے لگا اور بار بار ہینگ ہونا شروع ہو گیا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ فون کو ری سیٹ کر لیں تو فون پہلے کی طرح تیز کام کرنے لگے گا، فون کو ری سیٹ کیا تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ایک قریبی دکاندار کو فون چیک کرایا تو اس نے بتایا کہ یہ بہت کم میموری والا فون ہے، اس میں ڈیٹا زیادہ ہونے کی وجہ سے آہستہ چل رہا ہے۔
’دکاندار نے جب فون کی سیٹنگز کو ری سیٹ کر کے دکھایا تو میرے موبائل فون کی میموری 64 جی بی تھی اور ریم چار جی بی تھی، جبکہ مجھے 256 جی بی میموری اور چھ جی بی ریم دکھا کر فون بیچا گیا تھا۔‘
علینہ کا کہنا تھا کہ یہ تبدیل کیسے ہوا یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن دکان والا کہہ رہا تھا کہ آن لائن کام کرنے والے چین کے بنے موبائل فون میں اکثر غلط میموری اور ریم دکھا کر لوگوں کو بیچ دیتے ہیں۔ 
کراچی صدر موبائل مارکیٹ کے ایک دکاندار محمد رضوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ شہر میں آن لائن کام کرنے والے کچھ گروہ سرگرم ہو گئے ہیں جو سادہ شہریوں کو اپنی چالاکی سے لوٹ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرانے ماڈل کے سمارٹ فونز کے سافٹ ویئر میں میموری اور ریم تبدیل کر کے شہریوں سے پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔

10 سے 12 ہزار روپے کی مالیت کے فون میں معمولی سی تبدیلی کر کے اسے 25 سے 30 ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

محمد رضوان کے مطابق ان کے پاس ایک شخص موبائل فون فروخت کرنے کے لیے لایا، اس نے کاونٹر پر بتایا کہ فون کی میموری 128 جی بی اور ریم چھ جی بی کی ہے۔ کاونٹر پر موجود شخص کو حیرت ہوئی کہ اس ماڈل میں یہ میموری اور سپیڈ تو آئی نہیں پھر اس موبائل میں یہ کیسے شو کر رہا ہے؟
’ہمارے دکاندار نے فون کی چھان بین کی تو اندازہ ہوا کہ اس کے سافٹ ویئر میں تبدیلی کر کے اس کی میموری اور ریم بڑھا کر دکھائی جا رہی ہے۔ 32 جی بی کی میموری کو کسی نے تبدیل کر کے 128 جی بی اور 2 جی بی ریم کو چھ جی بی کر رکھا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موبائل بیچنے والے سے معلومات لیں تو اس نے بتایا کہ کچھ مہینے پہلے اس نے یہ موبائل فون آن لائن خریدا تھا۔
کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفہام نے بھی شہر میں اس طرح کے فراڈ کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شہر میں ایسے کئی گروپ متحرک ہیں جو لوگوں کو سستے موبائل فروخت کرنے کا جھانسہ دے کر لوٹ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی سب سے بڑی موبائل مارکیٹ میں بھی ایسے واقعات کچھ عرصہ قبل رپورٹ ہوئے جہاں دکاندار تھوڑے سے لالچ کے چکر میں صارفین کو فالٹ والے موبائل فون بیچ رہے تھے، ہماری ایسوسی ایشن نے اس پر سخت ایکشن لیا اور ایسے دکانداروں کے خلاف کارروائی کی۔

دکاندار محمد رضوان کے مطابق شہر میں آن لائن کام کرنے والے کچھ گروہ سرگرم ہو گئے ہیں جو سادہ شہریوں کو اپنی چالاکی سے لوٹ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

منہاج گلفام کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت موبائل کی انڈسٹری اتنی وسعت اختیار کر گئی ہے کہ ہر گلی محلے میں موبائل کی خرید و فروخت کی دکانیں ہیں، تقریباً تمام ہی علاقوں میں چھوٹی بڑی مارکیٹیں بھی قائم ہو گئی ہیں۔ ایسے میں ہر ایک ڈیلر پر نظر رکھنا آسان نہیں ہے، لیکن جہاں بھی ہمیں شکایت ملتی ہے ہم کارروائی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت شہر میں قائم مارکیٹوں سے بڑی مارکیٹ آن لائن بن گئی ہے، یہاں تک کہ کئی دکاندار بھی اب آن لائن کاروبار کو مارکیٹ میں بیٹھنے سے زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لیے موبائل کے پرانے کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ کئی نئے افراد بھی اس فیلڈ میں آ گئے ہیں، موبائل فونز کی اے، بی، سی کاپیاں بھی فروخت ہو رہی ہیں۔

شیئر: