Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن میں احتجاج کرنے والے کون ہیں اور انہیں ’لغڑی‘ کیوں کہا جاتا ہے؟

پاکستانی حکومت سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی کے نفاذ کے فیصلہ کو حتمی قرار دیتی ہے۔ (تصویر: بشکریہ مطیع اللہ)
افغان سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چمن میں افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے نفاذ کے خلاف گذشتہ  تقریباً دس ماہ سے احتجاج ہو رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے ان مظاہرین کے لیے ماہانہ 20 ہزار روپے وظیفہ کے اعلان سمیت کئی دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا لیکن اس کے باوجود یہ اپنا احتجاج ختم کرنے پر راضی نہیں۔ 
اب بلوچستان حکومت نے چمن کے ’لغڑیوں‘ کو پاسپورٹ کے اخراجات  ادا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے اور اس سلسلے میں نو کروڑ روپے مختص کر دیے ہیں۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے یہ اقدام چمن کے مقامی لوگوں کے مطالبے پر اٹھایا گیا ہے جس سے قانونی تقاضے پورے کرنے کے ساتھ  آمدروفت میں  آسانی پیدا ہوں گی۔ تاہم دھرنے کے شرکا اس نئے حکومتی اعلان سے بھی مطمئن نہیں۔
چمن کے ’آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد‘ نے اکتوبر 2023 میں اس وقت کی نگراں حکومت کی جانب سے پاک افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے ون ڈاکومنٹ رجیم یعنی پاسپورٹ اور ویزے کی شرط نافذ کرنے کے خلاف دھرنا شروع کیا جو 274 دنوں تک مسلسل جاری رہا۔
گذشتہ ماہ (21 جولائی کو) مظاہرین نے اپنے قائدین کی رہائی اور پاسپورٹ اور ویزے کی شرط واپس لینے کا مطالبہ  تسلیم کرنے کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کردیا تھا تاہم 13 اگست کو تاجر لغڑی اتحاد نے یہ کہہ کر دوبارہ دوبارہ دھرنا  شروع کردیا کہ مذاکرات کے نام پر ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور وعدے کے باوجود  پابندیاں ختم نہیں کی گئیں۔
گذشتہ تقریباً ایک سال سے سراپا احتجاج دھرنے کے شرکا کی اکثریت ’لغڑیوں‘ کی ہے جن کا کہنا ہے کہ جب تک انہیں پہلے کی طرح صرف شناختی کارڈ پر افغانستان آنے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

گذشتہ تقریباً ایک سال سے سراپا احتجاج دھرنے کے شرکا کی اکثریت ’لغڑیوں‘ کی ہے۔ (فوٹو: بشکریہ مطیع اللہ)

پاکستانی حکومت کی جانب سے پابندی لگنے سے پہلے روزانہ 20 سے 30 ہزار پاکستانی اور افغان باشندے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر پاک افغان سرحد سرحد عبور کرتے تھے۔
ان میں سے بیشتر چمن اور سپین بولدک کے وہ مقامی محنت کش اورمزدور تھے جو کندھوں پر سامان کی ترسیل کرکے روزگار کماتے تھے۔ ان محنت کشوں کو مقامی زبان میں ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔
پشتو زبان کے ادیب اور محقق عبدالرؤف رفیقی کے مطابق ’لغڑ‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں لفظی ترجمہ ’برہنہ‘ ہوسکتا ہے لغوی طور پر یہ لفظ ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو وسائل سے محروم اور مفلسی کی انتہا پر موجود ہو جس کے تن بدن پر کپڑے تک نہ ہو۔
اس طرح مقامی طور پر یہ اصطلاح ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کے پاس  گھر اور زمین سمیت کچھ کچھ نہ ہو یعنی معاشی طور پر بہت کمزور ہو۔
عبدالرؤف رفیقی نے بتایا کہ چمن کے لوگ جغرافیائی طور پر ایسے خطے میں رہتے ہیں جس کے ایک طرف سرحد اور ریگستان اوردوسری طرف خشک پہاڑ ہیں یہاں زراعت اور نہ ہی فیکٹریاں  ہیں یعنی روزگار کے کوئی ذرائع نہیں اور لوگوں کی اکثریت بہت زیادہ غریب ہے۔
ان کے بقول سرکاری نوکری، زراعت،  صنعت اور کوئی دوسرا کام نہ ہونے کی وجہ سے چمن کے زیادہ تر لوگ دوسروں کا سامان کندھوں پر اٹھا کر سرحد کے آر پار ترسیل کرکے بہت معمولی رقم کماتے تھے۔
ان محنت کشوں کے پاس زیادہ کچھ نہیں ہوتا اس لیے خود کو ’لغڑ ‘کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کام ہزاروں لغڑیوں کے لیے گھر کا چولہا جلانے کا واحد ذریعہ تھا سرحد بند ہونے سے یہ فاقہ کشی پر ہوگئے ہیں۔

سامان لانے اور لے جانے کے اس اجازت نامے کو ’لغڑی پیکیج‘ کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چمن کے صحافی نور زمان اچکزئی کے مطابق حکومت پاکستان کے پاس تقریباً 14 ہزار افراد بطور ’لغڑی‘ رجسٹرڈ ہیں جن میں سے دس ہزار پاکستانی اور چار ہزار افغان باشندے ہیں تاہم  لغڑیوں کی تنظیم کے مطابق اصل تعداد اس سے زیادہ ہے اور اب پاکستانی حکومت بھی  ان کی رجسٹریشن پچیس ہزار تک لے چاہتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نومبر 2023 سے پہلے لغڑیوں کو افغان تذکرہ اور پاکستانی شناختی کارڈ پر سرحد پرآزادانہ آمدروفت کی اجازت تھی۔  یہ لوگ ٹائر، کاسمٹیکس، خوراکی اشیا وغیرہ اپنے کندھوں پر لاد کر بغیر ٹیکس  کے پاکستان یا افغانستان لے جاتے تھے اوراسے فروخت کرکے یومیہ چند سو روپے  کماتے تھے۔
سامان لانے اور لے جانے کے اس اجازت نامے کو ’لغڑی پیکیج‘ کہا جاتا ہے۔
نور زمان اچکزئی کے مطابق چمن سے تعلق رکھنے والے کئی ہزار چھوٹے پاکستانی تاجروں کی افغانستان کے سرحدی ضلع سپین بولدک میں دکانیں، موٹر شوروم اور گودام بھی ہیں۔ پابندی لگنے سے پہلے  یہ لوگ روزانہ صبح افغانستان جاتے اور شام کو سرحد بند ہونے سے پہلے واپس پاکستان آجاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ پابندی لگنے سے ان دونوں طبقات کے علاوہ  وہ لوگ بھی زیادہ ہوئے ہیں جن کی سرحد پار رشتہ داریاں ہیں اسی طرح  علاج معالجہ کے لیے پاکستان آنےوالے افغان مریض بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔
نور زمان اچکزئی کے بقول لغڑیوں اور چھوٹے تاجروں نے ’آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد کے نام‘ سے اتحاد بناکر یہ احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ ان کا مطالبہ  پہلے کی طرح شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ پر آمدروفت اور لغڑی پیکیج کی بحالی  ہے۔
پاکستانی حکومت سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی کے نفاذ کے فیصلہ کو حتمی قرار دیتی ہے اور اس فیصلے کو سکیورٹی مسائل سے جوڑتی ہے۔

پشتو زبان کے ادیب اور محقق عبدالرؤف رفیقی کے مطابق ’لغڑ‘ پشتو زبان کا لفظ ہے۔ (فوٹو: بشکریہ مطیع اللہ)

حکومت سمجھتی ہے کہ آمدروفت میں آسانیوں کا فائدہ پاکستان میں دہشتگردی کرنےوالے دہشتگر د اور سمگلنگ میں ملوث نا پسندیدہ عناصر اٹھاتے ہیں جو پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے سرحد کے قریب رہنے والی آبادی کےخاندانی رشتوں اور روزگار کو متاثر کردیا ہے۔ دھرنے کی قیادت کرنےوالے صادق اچکزئی کہنا ہے کہ لغڑی محنت کش اور مزدور ہیں جو   دن بھر کی محنت کرکے پانچ سو ہزار روپے کماتے تھے اب پاسپورٹ، ویزا اور دوسری پابندیاں لگا کر ان کا روزگار چھین لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آمدروفت کو قانونی بنانے کے مخالف نہیں لیکن سات دہائیوں پہلے جو کرنا چاہیے تھا اگر وہ اب  کیا جارہا ہے تو کم از زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔
صادق اچکزئی کے مطابق سرحد کے دونوں اطراف آبادی کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں ان کی زبان، ثقافت ایک ہیں، آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ باڑ لگنے سے پہلے تک ان کے قبرستان اور مساجد تک ایک تھی۔ اب انہیں چند سو قدم کی دوری پر سرحد پار بیاہی گئی اپنی بہن سے ملنے ، اپنی فصل کو پانی دینے یا پھر اپنے رشتہ دار کے جنازے میں شرکت کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کے ایک تکلیف دہ، طویل اور مشکل طریقے کو اپنانے کا کہا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سرحد کے قریب رہنے والوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے انہیں آمدروفت میں آسانی دی جاتی ہیں تو یہاں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
صادق اچکزئی کے مطابق بہت سے لوگوں کا کاروبار سرحد پار ہے جو گزشتہ دس ماہ سے بند ہے۔ پہلے لوگ روزانہ آتے جاتے تھے، سرحد پر سامان کی ترسیل کرکے یومیہ اجرت کماتے تھے اب پاسپورٹ کی شرط لاگو کرکے یکدم ان سےروزگار چھین لیا گیا ہے، خاندان سے انہیں دور کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں اسلامی اور برادر ہمسائیہ ممالک ہیں انہیں سرحد کے قریب رہنے والوں کی آمدروفت کو آسان بنانے کے لیے ایک مستقبل حل تیار کرنا چاہیے جس میں مقامی آبادی کے روزگار، سماجی رابطوں اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ شامل ہو۔

شیئر: