حماس، اسلامی جہاد نے تل ابیب میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی
دھماکے میں بم لے جانے والا شخص ہلاک اور ایک راہگیر زخمی ہو گیا۔ (فوٹو: روئٹرز)
حماس اور اسلامی جہاد کے مسلح ونگز نے تل ابیب میں ایک عبادت گاہ کے قریب بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے جسے اسرائیلی پولیس اور شِن بیٹ انٹیلی جنس ایجنسی نے دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جائے وقوعہ پر موجود پولیس نے کہا ہے کہ اتوار کو رات گئے اس دھماکے میں بم لے جانے والا شخص ہلاک اور ایک راہگیر زخمی ہو گیا۔
حماس اور اسلامی جہاد کے مسلح ونگز نے کہا ہے کہ اسرائیل کے اندر ’شہادت کی کارروائیاں‘ اس وقت تک جاری رہیں گی ’جب تک اسرائیل کی قتل عام اور قاتلانہ حملوں کی پالیسی جاری رہے گی۔‘
یہ بیان غزہ میں اسرائیل کی جارحیت اور 31 جولائی کو تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کی طرف اشارہ ہے۔
اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی اس سے انکار کیا ہے۔
گزشتہ برس کے سات اکتوبر سے غزہ میں جنگ شروع ہوئی تھی جب حماس کے مسلح افراد نے سرحد پار سے اسرائیل پر حملہ کیا جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 250 کے قریب یرغمال بنائے گئے۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں اب تک کم سے کم 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تل ابیب میں اتوار کو ہونے والا دھماکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے پہنچنے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد ہوا۔
امریکی وزیر خارجہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 10 ماہ سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے جنگ بندی پر زور دیں گے۔
غزہ میں جنگ مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر پھیلنے کے خطرے کی وجہ سے جنگ بندی پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایران نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔