Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے ’نئی‘ شرائط مسترد کر دیں

حماس نے فوری طور پر کسی معاہدے پر پہنچنے کے حوالے سے شکوک ظاہر کیے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
حماس نے اُن ’نئی شرائط‘ کو مسترد کر دیا ہے جو غزہ میں جنگ بندی کی تجویز کے طور پر امریکی قیادت میں ثالثوں نے قطر میں دو دن کے مذاکرات میں پیش کیں۔
گزشتہ دس ماہ سے زائد عرصے سے بمباری کا سامنا کرنے والے غزہ کے شہریوں کی مشکلات کو ختم کی سفارتی کوششیں تاحال کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں لیکن امریکی صدر جو بائیڈن نے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ ’ہم بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔‘
دوسری جانب ایک امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات کے ثالث یرغمالیوں کی ممکنہ رہائی اور امداد کی تقسیم کے لیے لاجسٹک پر کام کر رہے ہیں جو کسی معاہدے پر پہنچنے کی صورت میں اس کا ایک اہم حصہ ہوگا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ اس بات کی علامت ہے کہ ثالثوں کے خیال میں فریقین جنگ بندی کے معاہدے کے قریب ہیں۔
امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت جو تجویز میز پر ہے وہ بنیادی طور پر اسرائیل اور حماس کے درمیان ہر خلیج کو ختم کرتی ہے اور ثالث حتمی معاہدے کی منظوری سے قبل تیاری کر رہے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن عہدیدار نے کہا کہ قاہرہ میں پہلے سے ہی ایک نیا ’عمل درآمد سیل‘ قائم کیا جا رہا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ سیل لاجسٹکس پر توجہ مرکوز رکھے گا جس میں یرغمالیوں کو آزاد کرانا، غزہ کے لیے انسانی امداد فراہم کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ معاہدے کی شرائط پوری ہوں، شامل ہے۔
امریکی عہدیدار نے یہ گفتگو ثالثوں کی جانب سے اس امید کا اظہار کرنے کے چند گھنٹے بعد کی جس میں کہا گیا تھا کہ معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
ثالثوں کا کہنا تھا کہ قطر میں دو دن کی بات چیت ختم ہو چکی ہے اور وہ اگلے ہفتے قاہرہ میں دوبارہ ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ لڑائی کو روکنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کر سکیں۔
دوحہ مذاکرات کے بعد اسرائیل نے ایک مبہم بیان جاری کیا جس میں اس نے ثالثوں کی کوششوں کو سراہا، جبکہ حماس کا بیان غزہ میں 10 ماہ کی تباہ کن جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرانے کی تازہ ترین تجویز کے بارے میں پرجوش نہیں۔
غزہ کی جنگ بندی کو مشرق وسطٰی میں ایک بڑے علاقائی تنازعے سے نمٹنے کی بہترین امید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مذاکرات میں کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن پُرامید نظر آئے اور کہا کہ ’ہم پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔‘

امریکی عہدیدار نے کہا کہ قاہرہ میں پہلے سے ہی ایک نیا ’عمل درآمد سیل‘ قائم کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اُن کا کہنا تھا کہ یہ حتمی ہونے سے ابھی بہت دور ہیں اور چند مسائل ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک شاٹ ملا ہے۔‘
دونوں فریقوں نے 31 مئی کو بائیڈن کے اعلان کردہ منصوبے پر اصولی طور پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن حماس نے ترامیم کی تجویز پیش کی جبکہ اسرائیل نے کچھ نکات کو مزید وضاحت سے شامل کیا۔
جس کے بعد سے دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ تازہ ترین تجویز وہی ہے جو بائیڈن کی ہے جس میں جاری بات چیت پر مبنی کچھ وضاحتیں ہیں۔ عہدیدار نے مزید کہا کہ جس طرح سے اس کو تشکیل دیا گیا اس سے اسرائیل کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔
حماس نے اسرائیل کے ان مطالبات کو مسترد کر دیا ہے جس میں مصر کے ساتھ سرحد پر اُس کی فوجی موجودگی اور غزہ کو اپنے گھروں کو واپس جانے والوں کو اسرائیلی فوجی سکروٹنی سے گزارنا شامل ہے۔

شیئر: