Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی: کارساز ٹریفک حادثہ کیس کی ملزمہ کی درخواستِ ضمانت مسترد

پیر کو کارساز میں ایک پراڈو گاڑی میں سوار خاتون نے پانچ افراد کو ٹکر مار دی تھی (فائل فوٹو: سکرین گریب)
کراچی کے علاقے کارساز میں پیش آنے والے ٹریفک حادثے کی مرکزی ملزمہ کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ 
کراچی سٹی کورٹ کی عدالت نے ملزمہ کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے اسے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو کراچی سٹی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی جہاں عدالت، خصوصی مجسٹریٹ کے فرائض انجام دے رہی ہے۔
ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کی موکلہ کی ذہنی حالت درست نہیں ہے اور ان کا علاج جاری ہے۔ وکیل نے درخواست کی کہ ملزمہ کو ضمانت دی جائے تاکہ وہ اپنا علاج جاری رکھ سکیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ جناح ہسپتال کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر چنی لعل نے ملزمہ کا معائنہ کرکے انہیں ہسپتال میں داخل کر لیا ہے۔ 
ڈاکٹر کے مطابق ملزمہ کی حالت عدالت میں پیش کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے اور اُن کی ذہنی حالت بہت خراب ہے۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ گرفتاری کے وقت ملزمہ کا ڈرائیونگ لائسنس قبضے میں لیا گیا تھا یا نہیں؟
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمہ کے پاس پاکستانی نہیں بلکہ برطانیہ کا لائسنس ہے، جس پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ یو کے کا لائسنس پاکستان میں کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے؟
تاہم عدالت نے درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے ملزمہ کو ایک دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ 
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ملزمہ خود عدالت میں پیش نہیں ہو سکتیں تو مکمل میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیا جائے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی ہے۔
واقعے کی تفصیلات
پیر کی شام کراچی کے علاقے کارساز میں ایک پراڈو گاڑی میں سوار خاتون نے سڑک پر پانچ افراد کو ٹکر مار دی تھی۔
اس حادثے کے نتیجے میں باپ اور بیٹی موقع پر ہلاک ہو گئے جبکہ دیگر افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔

حادثے میں مرنے والے باپ اور بیٹی کی شناخت آمنہ عارف اور محمد عارف کے نام سے ہوئی (فائل فوٹو: کراچی پولیس)

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سفید رنگ کی پراڈو گاڑی باپ اور بیٹی کو ٹکر مارنے کے بعد دیگر گاڑیوں سے ٹکرا رہی ہے۔
حادثے میں ہلاک ہونے والے باپ اور بیٹی کی شناخت آمنہ عارف اور محمد عارف کے نام سے ہوئی ہے۔
ان کے اہلِ خانہ کے مطابق آمنہ کے والد اسے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر واپس گھر لا رہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا، آمنہ تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور نجی یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی۔
موقع پر موجود شہریوں نے خاتون کو پولیس کے حوالے کر دیا جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے خاتون کے جناح ہسپتال سے میڈیکل ٹیسٹ کروائے۔
پولیس کا وضاحتی بیان
اس واقعے کے بعد کراچی پولیس نے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے جواب میں وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ حادثے کے بعد فوری کارروائی کی گئی۔
پولیس نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں جن سے تاثر مل رہا ہے کہ پولیس کارروائی میں سست روی کا شکار ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ 
’پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے خاتون کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ بھی کروائے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس ایسٹ قانون کی پاسداری کر رہی ہے اور کسی بھی قیاس آرائی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پولیس نے واضح کیا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالا نہیں ہے، اور وہ لواحقین کے دکھ میں شریک ہے۔

شیئر: