Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گلیشیئر دیکھ کر سکون ملتا مگر اب خوف آتا ہے‘، چترال کے رہائشی نقل مکانی پر مجبور

شاہد علی کے مطابق ’گلیشیئر کے پانی کو زندگی سمجھتے تھے مگر اس پانی نے ہماری زندگی ہی چھین لی۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)
خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں رواں برس سیلاب کے باعث 250 سے زیادہ مکانات تباہ ہوئے جبکہ حکام کی جانب سے گلیشیئر کے پھٹنے سے مزید 15 دیہات کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
31 جولائی کو ضلع اپر چترال میں واقع سوریچ کی خوبصورت وادی تباہ کن سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس گاؤں کے 82 مکانات مکمل طور پر ملیامیٹ ہوئے جبکہ 69 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
اس بدقسمت گاؤں کے رہائشی شاہد علی نے کہا کہ ’کلائمیٹ چینج کا نام تو سنا تھا مگر پہلی بار ایسی تباہی دیکھی، سیلابی ریلا چند لمحوں میں زندگی بھر کی جمع پونجی بہا کر لے گیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بچپن سے ان پہاڑوں اور گلیشیئر کو دیکھ کر دلی سکون ملتا تھا مگر اب ہمیں خوف آتا ہے۔
’گلیشیئر کے پانی کو زندگی سمجھتے تھے مگر اس پانی نے ہماری زندگی ہی چھین لی۔‘
وادی ریچ کے ویلج کونسل چیئرمین عمران علی شاہ نے بتایا کہ ’سیلاب سے متاثرہ گاؤں کے بیشتر لوگ ایک ہی قوم اور قبیلے کے ہیں۔ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں جن کے آبا و اجداد صدیوں سے اسی جگہ آباد ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ گاؤں میں پانی کی شدید قلت ہے جبکہ اب تک بجلی اور مواصلات کا نظام بھی بحال نہیں ہوا۔
چیئرمین ویلج کونسل کے مطابق متاثرہ شہری سر چُھپانے کے لیے اپنے رشتہ داروں کے گھروں اور کچھ ٹینٹ میں رہ رہے ہیں۔
سیلابی ریلے سے لوئر چترال کی وادی گولین بھی بری طرح متاثر ہوئی جہاں 30 سے زائد گھر بہہ گئے اور درجنوں کو جزوی نقصان پہنچا۔

متاثرہ علاقوں میں طبی سہولت اور پانی کی شدید کمی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اسی گاؤں کے رہائشی انور خان نے بتایا کہ گھروں کے ساتھ زمین بھی بہہ گئی۔ گھر بنانے کے لیے اب زمین بھی باقی نہیں رہی۔ سیلاب نے اتنی دہشت پھیلائی ہے کہ کوئی بھی بارش کی دعا نہیں کرتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 دنوں سے بے یارومددگار کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔ ’دو ماہ بعد سردی کا موسم شروع ہو گا تب یہ لوگ کیسے گزارا کریں گے۔‘
متاثرہ افراد کے لیے نیا گاؤں آباد کرنے کی تجویز
خیبر پختونخوا اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر ثریا بی بی جن کا تعلق اپر چترال سے ہے، نے اردو نیوز کو بتایا کہ حالیہ سیلاب سے 250 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے۔  
’اس سلسلے میں چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے خود ان علاقوں کا دورہ کیا۔ متبادل علاقے میں آباد کاری کے لیے چیف سیکریٹری کو بریفنگ دی گئی ہے۔ امید ہے تمام سرکاری طریقہ کار کو تیزی سے مکمل کر کے متاثرہ افراد کے لیے نئے گھر تیار کیے جا سکیں گے۔‘
ڈپٹی سپیکر ثریا بی بی نے کہا کہ بری، یارخون، اور ریشن کے متاثرہ افراد بھی دوسرے محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم سرکاری زمین کی دستیابی اور فنڈز میں تاخیر کی وجہ سے یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔
متاثرہ علاقوں کے مکینوں کی نقل مکانی
اپر چترال کا گاؤں ریشن سیلاب کے ساتھ ساتھ زمین کی کٹائی کی وجہ سے آفت زدہ قرار دیا گیا ہے اس گاؤں میں اب تک 35 سے زیادہ گھر زمین بوس ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں ایکڑ پر محیط زمین بھی دریا میں بہہ گئی ہے۔
ریشن کے مکینوں کے مطابق شادیر کے مقام پر سیلاب سے متاثرہ لوگ پہاڑوں میں گھر بنا کر آباد ہونے لگے ہیں تاہم جن کے پاس زمین نہیں ہے وہ دوسرے گاؤں نقل مکانی کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دریا کا بہاؤ تیز ہے، اگر پانی کا رخ نہ موڑا گیا تو مزید مکانات کو نقصان ہو سکتا ہے۔

حکومت مقامی رہائشیوں کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے کا سوچ رہی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

’15 دیہات گلیشیئر کے پھٹنے سے  بہہ سکتے ہیں‘
گلوف ٹو پراجیکٹ خیبر پختونخوا کے مطابق چترال میں حالیہ سیلاب گلیشیئر کے پگھلنے کی وجہ سے آیا۔ شیشی کوہ، گولین گول، چترال گول، آرکاری، بونی گول، یارخون، بریپ اور سوریچ میں گلیشیئر کے پھٹنے سے ندی نالوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
گلوف ٹو پراجیکٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ چترال کے دونوں اضلاع کے 15 دیہات اس وقت ریڈ زون میں ہیں جو کسی بھی وقت گلیشیئر کے پھٹنے کی وجہ سے سیلاب میں بہہ سکتے ہیں۔ خدشے کے پیش نظر تمام متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا گیا ہے۔
’ایمرجنسی فنڈز مہیا کیے جائیں‘
لوئر چترال سے صوبائی اسمبلی کے رکن فتح الملک نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع چترال میں ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
گھر، سکول، سڑکیں اور پُل مکمل تباہ ہیں جبکہ پانی اور بجلی کا نظام بھی متاثر ہے۔ متاثرہ افراد کے لیے ریلیف اور محفوظ علاقوں کو بچانے کے لیے ایمرجنسی فنڈز مہیا کیے جائیں۔‘

شیئر: