Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’موت سر پر تھی‘، سیلابی ریلے میں پھنسے 5 افراد کو ڈرائیور نے کیسے بچایا؟

’جب میں نے دیکھا کہ موت بہت قریب آگئی اور بچنے کا کوئی امکان نہیں تو کچھ فاصلے پر کھڑے بڑے بھائی کو فون کرکے کہا کہ مرنے کے بعد میرے اور بچوں کی لاشیں  پانی سے نکال لینا۔‘
یہ کہنا ہے 35 سالہ عبدالولی کا جو اپنے چارکم عمر بیٹوں اور بھتیجوں کے ہمراہ ایک سیلابی ریلے میں ڈیڑھ گھنٹے سے زائد عرصے تک پھنسے رہے اور قریب تھا کہ ان کی گاڑی سیلابی پانی بہا کر لے جاتا کہ ایک ایکسویٹر ڈرائیور نے اپنی جان پر کھیل کر  کمال مہارت سے انہیں بچالیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایکسویٹر ڈرائیور محیب اللہ کو اس کارنامے پر سراہتے ہوئے انہیں نقد انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’ڈرائیور نے بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیلابی ریلے میں پھنسے افراد کی زندگی بچا کر خدمت خلق کی عمدہ مثال قائم کی۔ معاشرے کی بے لوث خدمت کرنے والے ہی ہمارے حقیقی ہیرو ہے۔‘
یہ واقعہ اتوار کی شام کو بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کےعلاقے توت اڈہ میں پیش آیا۔ عبدالولی کے مطابق وہ طبیعت خراب ہونے پر حرمزئی میں ایک ڈاکٹر کے پاس گئے تھے اور ان کے ہمراہ ان کے دو بیٹے اور دو بھتیجے بھی تھے جن کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں۔
’ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد واپس گھر آتے ہوئے موسلا دھار بارش کی وجہ سے توت اڈہ کے مقام پر ندی میں طغیانی آگئی۔ پانی اتنا زیادہ تھا کہ سڑک کے اوپر بہنے لگ گیا جس سے راستہ بند ہوگیا اورگاڑیوں کی لمبی قطار لگ گئیں۔‘
ان کے بقول ’آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد پانی کم ہوا تو مجھ سے آگے تین چار گاڑیوں نے ندی کے اوپر سڑک عبور کرلی۔ میں بھی ان کے پیچھے گیا لیکن اچانک دوسرا سیلابی ریلہ آیا اور ہماری گاڑی درمیان میں پھنس گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم  آگے جاسکتے تھے اور نہ پیچھے، پانی کی سطح آہستہ آہستہ بلند اور اس کا بہاؤ تیز ہوتا جارہا تھا۔ میں نے گاڑی کے شیشے اوپر کر لیے تاکہ پانی اندر نہ آسکے لیکن  پانی کی سطح کم ہونے کے بجائے بلند ہوتی جارہی تھی۔‘
عبدالولی نے بتایا کہ ’مجھے موت سر پر منڈلاتے ہوئے نظر آرہی تھی۔ میں نے بھائی کو فون بھی کیا جو چچا، چچا زاد بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو لے کر موقع پر پہنچا لیکن وہ  بھی کچھ نہ کرسکے اور ندی کے کنارے کھڑے ہمیں بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔ بھائی نے فون کر کے روتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی مدد نہیں کرسکتے ،آپ اپنے اور بچوں کے لیے دعا کرنا۔‘

محیب اللہ نے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے ایکسویٹر آپریٹر اور ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں (فوٹو: منصور احمد)

عبدالولی کے مطابق ’اس وقت مجھے فکر ہورہی تھی کہ  پتہ نہیں ہمارے پیاروں کو ہماری لاشیں بھی ملیں گی۔ جب پانی کی سطح گاڑی کے بونٹ  تک پہنچ گئی تو میں نے بڑے بھائی کو فون کرکے کہا کہ موت سے تو اب بچنا ممکن نہیں رہا۔ جب میں اور بچے پانی میں بہہ جائیں تو ہماری لاشیں ضرور نکالنا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اسی طرح تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک پانی میں پھنسے رہے اور موت کا انتظار کرتے رہے کہ  اللہ نے ہمارے لیے محیب اللہ کو رحمت کا فرشتہ بنا کر بھیجا۔ انہوں نے ایسے وقت میں جب ہمارے اپنے بھائی اور رشتہ دار بھی مدد کرنے سے قاصر ہوگئے اپنی جان پر کھیل کر ہماری جان بچائی۔‘
ایکسویٹر کے ڈرائیور محیب اللہ مسے زئی کاکڑ نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ پکنک منانے ندی کنارے آئے ہوئے تھے اس دوران سیلابی ریلہ آیا اور اس میں ایک گاڑی پھنس گئی جس میں بچے بھی بیٹھے نظر آرہے تھے۔
محیب اللہ کے مطابق ’میں نے ایک مزدا ٹرک کے ڈرائیور کو کہا کہ ان بچوں کو بچاتے ہیں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی پانی کا بہاؤ بہت تیز ہے اور اس میں بہت زیادہ خطرہ ہے۔‘
ان کے بقول آہستہ آہستہ لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا لیکن کسی کو کوئی ترکیب نہ سوجھی سب بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔ ’مجھے سب سے زیادہ بچوں کی فکر ہورہی تھی کہ کیسے انہیں بچاؤں۔ اس دوران میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنا ایکسویٹر لاکر گاڑی کو باہر نکالوں۔‘
محیب اللہ نے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے ایکسویٹر آپریٹر اور ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں اور ان کا ایکسویٹر اس وقت جائے وقوعہ سے تقریباً چار کلومیٹر دور ایک زیر تعمیر گھر میں کھڑا تھا۔

محیب اللہ کے مطابق وہ ایکسویٹر کو لے کر موقع پر پہنچے اور جان کی پرواہ کئے بغیر سیلابی ریلے میں اترے (فوٹو: منصور احمد)

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے دوست کو کہا کہ مجھے ایکسویٹر تک پہنچاؤ۔ آدھے راستے میں اس کی گاڑی بھی پھنس گئی۔ وقت کم اور انسانی جانوں کے ڈوبنے کا خطرہ زیادہ تھا  اس لیے میں نے گاڑی سے اتر کر بھاگنا شروع کردیا۔ راستے میں ایک موٹر سائیکل سوار ملا جس نے مجھے ایکسویٹر تک پہنچایا۔‘
محیب اللہ کے مطابق وہ ایکسویٹر کو لے کر موقع پر پہنچے اور جان کی پرواہ کئے بغیر سیلابی ریلے میں اترے۔ انہوں نے بتایا کہ ’پانی کا بہاؤ آخری وقت میں اتنا تیز ہوگیا کہ مجھے لگا کہ شاید ایکسویٹر کو بھی بہا کر لے جائے، تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری اور گاڑی کو ایکسویٹر سے پکڑے رکھا تاکہ پانی اسے بہاکر نہ لے جائے اورآخر کار گاڑی کو ایکسویٹر کی مدد سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔‘
محیب اللہ کی جانب سے سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ بڑی مہارت سے بے قابو پانی میں بہتی ہوئی گاڑی کو ایکسویٹر کی مدد سے اوپر اٹھاکر محفوظ مقام تک پہنچارہے ہیں۔
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور انہیں سراہا جارہا ہے۔ محیب اللہ خود بھی پانچ قیمتی جانیں بچانے پر بہت خوش ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ان کی حوصلہ افزائی کرنے ان کے گھر آرہے ہیں۔ جس وقت محیب االلہ سے ٹیلیفون پر اردو نیوز سے بات کررہے تھے اس وقت عبدالولی ریسکیو کیے گئے بچوں اور اپنے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ہمراہ ان کا شکریہ ادا کرنے  ان کے گھر پہنچے۔
عبدالولی کا کہنا ہے کہ ’میرا اور بچوں کا زندہ بچ جانا معجزہ ہے۔ محیب اللہ کی وجہ سے اللہ پاک نے ہم پانچوں کو نئی زندگی دی ہے۔ ہم اس احسان کا کوئی بدلہ تو ادا نہیں کرسکتے لیکن ہمارا پورا گھر ان کا شکریہ ادا کرنے  پہنچا ہے۔ ہم نے انہیں اپنے گھر دعوت پر بلایا ہے۔‘

شیئر: