Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ کے کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال کا خدشہ، ’بچاؤ کے لیے تیاری نہیں‘

سندھ کے علاقے تھرپارکر سے متصل ضلع بدین کے کسان گذشتہ کئی برسوں سے مون سون کے سیزن میں نقصان کا سامنا کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں مون سون کی بارشوں کے بعد ایک بار پھر سیلابی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔
دریائے سندھ سے متصل کچے کے علاقے اور سمندر کنارے آباد چھوٹے بڑے گاؤں زیر آب آ رہے ہیں اور لوگوں کو ان مقامات سے نقل مکانی کے لیے کہا جا رہا ہے۔
پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے بھی موسلا دھار بارشوں اور سیلابی صورت حال کے پیش نظر اربن فلڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا جا چکا ہے۔
سمندر کو دریائے سندھ سے ملانے والے علاقوں کیٹی بندر، میرپور ساکرو، گھارو، گاڑھو، ٹھٹہ، سجاول اور کوٹری سمیت مختلف علاقوں میں رہنے والوں نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں جب کہ دریائے سندھ کے کنارے پر آباد شہروں اور دیہات کے رہنے والے بھی اپنی مدد آپ کے تحت انتظامات کر رہے ہیں۔
جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب دریائے سندھ کے پانی کے تیز بہاؤ نے سندھ کے متعدد علاقوں کو متاثر کیا ہے جن میں بھٹ شاہ، سانگھڑ، ٹندو آدم سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں میں قائم چھوٹی بڑی نہروں میں پانی کا بہائو بڑھنے کی وجہ سے کئی مقامات پر حضاطتی بندوں میں شگاف پڑ گئے ہیں، جس کے بعد پانی چھوٹے بڑھے دیہات اور شہروں میں داخل ہو گیا ہے۔
پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے، اس دوران ان کے مال مویشیوں اور تیار فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
سمندر کنارے آباد یہ علاقے زرعی اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔
ان علاقوں میں رہنے والوں نے اپنی کوششوں سے یہاں پان کی فصلیں اگائی ہیں اور پاکستان کی ضرورت کا پان اب ملک میں ہی کاشت کیا جا رہا ہے۔
 اس علاقے میں سلون، سانچی، بنگلہ اور کراچی سمیت دیگر اقسام کے پان اُگائے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان اپنی ضرورت کے پان کا بڑا حصہ انڈیا سے درآمد کرتا تھا۔
یہاں سے چند قدم کلومیٹر کے فاصلے پر کوئلے کی سینکڑوں بھٹیاں موجود ہیں، یہاں چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر لکڑی سے کوئلہ بنایا جاتا ہے اور کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں ان علاقوں سے کوئلہ بھیجا جاتا ہے۔

دریائے سندھ کے پانی کے تیز بہاؤ نے سندھ کے متعدد علاقوں کو متاثر کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سمندر قریب ہونے کی وجہ سے یہاں مچھلیوں کے کئی فارم بھی موجود ہیں۔ میٹھے پانی کے ساتھ ساتھ کھارے پانی کی مچھلیوں کے تالاب بھی ان علاقوں میں موجود ہیں جہاں سے ناصرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک بھی مچھلیاں بھیجی جاتی ہیں۔
سندھ میں اربن فلڈنگ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی متحرک ہیں۔
انہوں نے منگل کے روز بلاول ہاؤس کراچی میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی سے ملاقات کی ہے اور سندھ میں سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات سے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو آگاہ کیا ہے۔  
اس سے قبل دریائے سندھ کو بحیرہ عرب سے ملانے والے ضلع ٹھٹھہ میں صوبائی حکومت کی جانب سے ایک اہم اجلاس بھی کیا گیا ہے جس میں بلدیاتی نمائندوں، غیر سرکاری تنظیموں کے سربراہان، ڈپٹی کمشنر ٹھٹھہ، ایس ایس پی ٹھٹھہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔
مقامی انتظامیہ نے ممکنہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا ہے۔

پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ اس علاقے میں رہنے والوں کو جہاں ایک جانب بارشوں کے پانی سے خطرہ لاحق ہے وہیں سمندر کا پانی بھی اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتا ہے۔
سمندر کی سطح بلند ہونے پر کھارا پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے، اور پانی کی سطح بلند ہونے سے جہاں فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے وہیں یہاں کے رہنے والوں کو نقل مکانی بھی کرنی پڑتی ہے۔
سندھ کے صحرائی علاقوں میں جہاں بارش خوشی کی نوید سناتی ہے وہیں ان صحرائی علاقوں سے جڑے کئی مقامات میں رہنے والے کچھ عرصے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے پریشان بھی ہیں۔
سندھ کے علاقے تھرپارکر سے متصل ضلع بدین کے کسان گذشتہ کئی برسوں سے مون سون کے سیزن میں بھاری نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔
ضلع بدین کے علاقے ٹنڈو بھاگو کے رہائشی فیاض عالم بلیدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ سات ایکڑ اراضی پر کاشت کاری کرتے ہیں، ان کی فصل ٹماٹر اور مرچ کی ہوتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے معمول سے بڑھ کر بارشیں ہونے اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے انہیں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا علاقہ صحرائی علاقے سے متصل ضرور ہے لیکن یہ علاقہ بہت زرخیر ہے، یہاں پھلوں اور سبزیوں کی اچھی کاشت ہوتی ہے۔ کراچی کی طلب کے مطابق ٹماٹر بھی اسی علاقے سے جاتا ہے۔‘

صحرائی علاقوں سے جڑے کئی مقامات میں رہنے والے کچھ عرصے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے پریشان بھی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فیاض عالم بلیدی نے کہا کہ ’بے موسمی بارشوں کے باعث سیلابی پانی ان علاقوں میں داخل ہوا جس کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچا ہے اور تیار فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کئی مہینوں کی محنت سے تیار ہونے والی فصل کے ایک لمحے میں ختم ہو جانے کی وجہ سے کئی کاشت کار اب مقروض ہو چکے ہیں، کئی افراد اپنا قرض اتارنے کے لیے اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔‘
بدین شہر سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن واثق میمن کے مطابق ’دنیا بھر کی طرح سندھ کے صحرائی علاقوں میں بھی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں جہاں موسم تبدیل ہو رہا ہے وہیں سندھ کا صحرا بھی اس کی زد میں ہے۔ معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلابی صورت حال کی وجہ سے صحرا میں بسنے والے تو خوش ہیں لیکن ان علاقوں کے اردگرد بسنے والے پریشان ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ میں آنے والے سیلاب کے بعد ہونے والی تباہ کاریوں سے سب آگاہ ہیں لیکن اس سے بچاؤ کے لیے کوئی تیاری نہیں کی جا رہی ہے۔ وقتی طور پر بیانات، دعوے اور اجلاس تو ہو جاتے ہیں لیکن طویل مدتی پالیسی نہیں بنائی جا رہی، جس کی وجہ سے ہر سال یہاں کے رہنے والے اس مشکل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔‘

شیئر: