پنجاب میں ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کیسے مقرر کی جاتی ہے؟
پنجاب میں ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کیسے مقرر کی جاتی ہے؟
پیر 26 اگست 2024 18:29
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
سرکاری ریکارڈ کے مطابق فہرست پر پہلے نمبر پر مبینہ ڈاکو شاہد لنڈ پر تھانے پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے حال ہی میں کچے کے علاقے میں سرگرم 20 ڈاکوؤں کے سر کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے رقم 10لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دی ہے۔
ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ڈاکوؤں کے سر کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل اتنی رقم دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کے سروں پر رکھی جاتی تھی۔
دلچسپ بات مگر یہ ہوئی کہ جن 20 ڈاکوؤں کے سر کی قیمت پنجاب کے محکمہ داخلہ نے بڑھائی اور ان کی تصاویر اخبار میں شائع کیں، ان میں سے پہلے نمبر پر موجود مبینہ ڈاکو شاہد لنڈ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور کہا کہ ’اس کا تعلق رحیم یار خان میں پولیس پر کیے جانے والے حملے سے بالکل نہیں ہے۔‘
گذشتہ جمعرات کو رحیم یار خان کے علاقے میں ڈاکووں نے پولیس کی گاڑیوں پر حملہ کیا تھا جس میں 12 پولیس اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اس صورت حال کے بعد کچے کے مفرور ڈاکوؤں کی سر کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔
ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کیسے لگائی جاتی ہے اور اس کے طریقہ کار سے متعلق محکمہ داخلہ پنجاب کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوئی بھی ملزم جس کے جرائم کی فہرست بڑی ہو اور وہ پولیس کی دسترس میں نہ آ رہا ہو تو اس کے سر کی قیمت لگانے کی سفارش اس ضلع کی پولیس کی جانب سے کی جاتی ہے جہاں وہ مطلوب ہوتا ہے۔ اور عام طور پر یہ درخواست ڈی پی او کی جانب سے ہوتی ہے۔‘
’مذکورہ درخواست پھر آئی جی آفس سے محکمہ داخلہ کو موصول ہوتی ہے۔ اور محکمہ داخلہ کے اندر پولیس ڈیسک اس کو تیار کر کے کابینہ کمیٹی کے سامنے رکھتا ہے۔ اور پھر کابینہ کمیٹی ایک ایک کیس کو دیکھ کر اس پر فیصلہ کرتی ہے اور اسی سفارش کے مطابق سر کی قیمت رکھ دی جاتی ہے۔‘
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’موجودہ صورت حال میں پہلے سے ہی تمام ملزمان کے سر کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے پنجاب پولیس سے سفارش آئی تھی اور گذشتہ ہفتے اس پر سیکریٹری داخلہ پنجاب کی زیر صدارت ایک اجلاس بھی ہو چکا ہے جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ چہلم کے بعد ہونے والے کابینہ کمیٹی کی میٹنگ سے اس اضافے کی اجازت لی جائے گی۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس دوران رحیم یار خان والا واقعہ ہوا جس میں وزیر اعلٰی پنجاب نے ایک ایگزیکٹو آرڈر سے کچے کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک ایک کروڑ کی، اور محکمہ داخلہ نے اسی حساب سے اشتہار جاری کیا۔
’باقی ملزمان کے سر قیمتوں کو بڑھانے کے لئے اجلاس اپنے طے شدہ شیڈول پر ہو گا۔‘
محکمہ داخلہ پنجاب میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق جن 20 ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے، ان پر ڈکیتی اغوا اور پولیس اہلکاروں پر مختلف اوقات میں حملے کرنے کے الزامات ہیں۔
تاہم محکمہ داخلہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہ جو اشتہار جاری کیا گیا ہے اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ سانحہ رحیم یار خان میں ملوث ڈاکوؤں کے سر کی قیمت بڑھائی گئی ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق فہرست پر پہلے نمبر پر مبینہ ڈاکو شاہد لنڈ پر تھانے پر حملہ کرنے کا الزام بھی ہے جبکہ قتل اور ڈکیتی کے متعدد مقدمات ان پر درج ہیں۔